پاکستان: حفاظتی مرکز میں بچوں سے زیادتی
4 اکتوبر 2012یہ مرکز اُن مراکز میں سے ایک ہے، جہاں پر گلیوں اور بازاروں میں آوارہ پھرنے والے لاوارث بچوں کو سرکاری تحویل میں لینے کے بعد رکھا جاتا ہے۔ پاکستان میں بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی اٹھائیس غیر سرکاری تنظیموں کے اتحاد چائلڈ رائٹس موومنٹ نے فیصل آباد میں سرکاری اہلکاروں کی طرف سے معصوم بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنانے کے واقعے کی اعلیٰ سطحی غیر جانب دارانہ اور منصفانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
اس اتحاد کے ترجمان افتخار مبارک نے ڈوئچے ویلے سے باتیں کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ ان تحقیقات میں سول سوسائٹی اور بچوں کے لیے کام کرنے والی تنظیموں سے وابستہ افراد بھی شامل کیے جائیں تاکہ منصفانہ تحقیقات کو یقینی بنایا جا سکے۔ ان کے بقول اگر ہمارے بچے سرکاری اداروں کے حفاظتی مراکز میں بھی محفوظ نہیں ہیں تو باہر پھرنے والے بے گھر بچوں پر گذرنے والے حالات کا تو اندازہ لگانا بھی مشکل ہے۔
افتخار مبارک کے بقول اس واقعے سے پتا چلتا ہے کہ بچوں کے لیے قائم کیے گئے سرکاری اداروں کے نظام میں سقم ہیں، جن کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کے بقول بچوں پر تشدد کے حوالے سے باقاعدہ ریکارڈ تو دستیاب نہیں ہے لیکن اخباروں میں شائع ہونے والی خبروں کے ریکارڈ کے مطابق پچھلے ایک سال میں پاکستان میں پچیس سو سے زائد بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا جبکہ اصل تعداد اس سے بہت زیادہ ہے۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بچوں کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے جمعے کے روز لاہور میں اس واقعے کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔
ادھر پنجاب میں لاوارث اور بے سہارہ بچوں کے لیے قائم کیے گئے ادارے چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو کی ڈائریکٹر جنرل آمنہ امام نے بتایا کہ متاثرہ بچوں کی حفاظت کے لیے انتظامات کر لیے گئے ہیں اور فیصل آباد سے چالیس بچوں کو لاہور منتقل کر دیا گیا ہے۔ ان کے مطابق بچوں کے ساتھ زیادتی کے مرتکب نچلے درجے کے نو ملازمین کو معطل کر کے نہ صرف ان کے خلاف محکمانہ انکوائری شروع کر دی گئی ہے بلکہ ان کے خلاف ایف آئی آر بھی درج کرا دی گئی ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ اس واقعے میں ملوث لوگوں کو عبرت کا نشان بنا دیا جائے گا۔ انہوں نے ان الزامات کی تردید کی کہ یہ صورتحال ان کے دفتر کے لوگوں کے باہمی تنازعات کا شاخسانہ ہے۔
فیصل آباد کے مذکورہ حفاظتی مرکز میں بطور استاد کام کرنے والے ظہیر احمد طاہر نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ ان کے ساتھیوں پر بچوں پر تشدد کے الزامات غلط ہیں۔ ان کے بقول فیصل آباد کے مرکز کے انچارج عمر دراز بھٹی ایک جونیئر افسر ہیں اور ملازمین کے ساتھ بد زبانی کرتے ہیں۔ مزید یہ کہ انہوں نے دو ماہ سے ملازمین کی تنخواہیں بند کر رکھی ہیں، جس کی وجہ سے ملازمین گزشتہ دو ماہ سے اُن کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ ظہیر احمد طاہر کے بقول مرکز کے انچارج نے احتجاج کرنے والے ملازمین کو سبق سکھانے کے لیے یہ ڈرامہ رچایا ہے۔
ڈوئچے ویلے کے رابطہ کرنے پر فیصل آباد مرکز کے انچارج عمر دراز بھٹی نے ان الزامات کی تردید کی اور کہا کہ ان کے پاس وہ موبائل فون سیٹ بھی محفوظ ہے، جس کے ذریعے ملزمان بچوں کو قابل اعتراض ویڈیوز دکھایا کرتے تھے۔ ان کے بقول یہ لوگ بچوں سے نوکروں کی طرح کام لیتے تھے، ان سے جھاڑو پھرواتے، کپڑے دھلواتے اور شکایت لگانے کی صورت میں انہیں سنگین نتائج کی دھمکیاں دیتے تھے۔ ان کے بقول بچوں کے حفاظتی مرکز کے مذکورہ ملازمین مافیا کا روپ دھار چکے ہیں۔
ادھر تھانہ مدینہ ٹاون کے اہلکاروں نے بتایا کہ اس کیس کی تفتیش کے لیے پولیس کے تفتیشی حکام نے جمعرات کی شام کو دونوں پارٹیوں کو طلب کر لیا ہے۔
پاکستان میں پندرہ سال سے کم عمر کے بچے ملکی آبادی کا پینتیس فی صد بتائے جاتے ہیں۔ پنجاب کے چائلڈ پروٹیکشن بیورو میں گزشتہ چھ برسوں میں تقریباً چالیس ہزاربچے لائے گئے۔ آج کل پنجاب میں بچوں کی حفاظت کے لیے قائم سات مراکز میں ایک ہزار کے قریب بچے موجود ہیں۔
رپورٹ: تنویر شہزاد، لاہور
ادارت: امجد علی