1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان: کوڑھ اور تپ دق کے خلاف جنگ میں مصروف جرمن ڈاکٹر

25 مارچ 2021

گزشتہ تین عشروں سے بھی زائد عرصے سے یہ پینسٹھ سالہ جرمن ڈاکٹر پاکستان میں کوڑھ اور تپ دق کے مریضوں کا علاج جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پاکستان کے ہزاروں غریب اور لاچار مریضوں کے لیے وہ کسی ’مسیحا‘ سے کم نہیں ہیں۔

https://p.dw.com/p/3r8Pe
Schwester Chris und ihr Kampf gegen Tuberkulose in Pakistan
تصویر: Arne Immanuel Bänsch/dpa/picture alliance

جرمن ڈاکٹر کرسٹینے شموٹسر گزشتہ 33 برسوں سے پاکستان میں خدمات انجام دے رہی ہیں اور راولپنڈی میں واقع ان کے کلینک میں ہر روز ہی مریضوں کا رش رہتا ہے۔ جرمن شہر ہیرسبروک سے تعلق رکھنے والی یہ ڈاکٹر کوڑھ، تپ دق اور جلدی بیماریوں کا علاج کرتی ہیں۔ انہوں نے مشہور شہر ہائیڈل برگ سے امراض نسواں کی ڈگری حاصل کی اور پھر کچھ دیر ایتھوپیا میں کام کیا۔

وہ بتاتی ہیں کہ پاکستان منتقل ہونے کا فیصلہ ان کے لیے مشکل نہیں تھا، کیوں کہ وہ صرف مریضوں کی مدد کرنا چاہتی تھیں۔ جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کو مسکراتے ہوئے انہوں نے بتایا، ''مجھ سے ایک راہبہ دوست نے درخواست کی کہ ادھر پاکستان میں آ جاؤ اور پھر میں شوق سے آ بھی گئی۔‘‘

Schwester Chris und ihr Kampf gegen Tuberkulose in Pakistan
تصویر: Arne Immanuel Bänsch/dpa/picture alliance

راولپنڈی کا یہ ہسپتال، جو اصل میں نوآبادیاتی دور میں بنایا گیا تھا، بیماروں کے لیے آرام کی جگہ ہے اور یہاں ڈاکٹر کرسٹینے شموٹسر کو 'سسٹر کرس‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس ہسپتال کے اندر آئیں تو یہ احساس بالکل ہی ختم ہو جاتا ہے کہ یہاں کی سرسبز دیواروں کے پیچھے ایک بہت بڑا شہر اور سڑکوں پر ہلچل مچی ہوئی ہے۔ یہاں نہ تو ٹریفک کا شور پہنچتا ہے اور نہ ہی کسی گاڑن کا ہارن سنائی دیتا ہے۔

سالانہ ایک لاکھ پچاس ہزار مریض

اس کلینک میں سالانہ ڈیڑھ لاکھ مریض اپنے علاج کے لیے آتے ہیں۔ بنیادی طور پر یہ ہسپتال جرمنی کی جذام اور تپ دق سے متعلق ایک امدادی تنظیم میسیرور کے تعاون اور مقامی عطیات سے چلایا جا رہا ہے۔ پاکستان آنے کے کچھ ہی عرصے بعد کرسٹینے شموٹسر نے اس ہسپتال کی سربراہی سنبھال لی تھی۔ ان کی کئی عشروں پر محیط خدمات کے پیش نظر گزشتہ برس دسمبر میں جرمن حکومت نے انہیں بُنڈس فیرڈینسٹ کروئس (جرمن آرڈر آف میرٹ ایوارڈ) سے نوازا تھا۔

اس ہسپتال میں کچھ جذام کے مریض بھی موجود ہیں لیکن بنیادی طور پر یہاں تپ دق (ٹی بی) اور جلدی امراض کا علاج کیا جاتا ہے۔ یہاں پر آنکھوں کے علاج کے لیے بھی ایک شعبہ قائم کیا گیا ہے اور باقاعدگی کے ساتھ پاکستانی دیہات میں جا کر مریضوں کا علاج کرنا بھی کرسٹینے شموٹسر کے معمولات کا حصہ ہے۔

چوبیس مارچ کو انسداد تپ دق کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس حوالے سے  کرسٹینے شموٹسر کا کہنا تھا، ''ٹی بی نظام صحت کا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ علاج کے باوجود نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں یہ بیماری بہت ہی زیادہ ہلاکتوں کا سبب بن رہی ہے۔‘‘

Schwester Chris und ihr Kampf gegen Tuberkulose in Pakistan
تصویر: Arne Immanuel Bänsch/dpa/picture alliance

پاکستان میں سالانہ تقریبا پانچ لاکھ افراد اس بیماری کا شکار ہو جاتے ہیں اور اس کی کئی وجوہات ہیں۔  ڈاکٹر کرسٹینے شموٹسر بتاتی ہیں، ''میں حیران رہ جاتی ہوں، ابھی تک ایسے مریضوں کے ساتھ ناروا سلوک کیا جاتا ہے، کسی گھر میں کوئی ایک مریض ٹی بی کا سامنے آئے تو لوگ ان گھر والوں سے کترانے لگتے ہیں۔ ملک کے زیادہ تر حصوں میں اچھی ادویات کی فراہمی کا نظام نہیں ہے۔ غربت اور دیگر حالات بھی ایسی وجوہات ہیں کہ لوگ ٹیسٹ نہیں کروا پاتے۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ بعض اوقات گھر والوں کو علامات کا علم ہو جاتا ہے لیکن اس کے باوجود لوگ معاشرتی خوف سے اس بیماری کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔

پاکستان سے محبت

ڈاکٹر  کرسٹینے شموٹسر گزشتہ تینتیس برسوں میں ان گنت مریضوں کا علاج کر چکی ہیں اور ایسا کرنے کے لیے مسیحی مذہب بھی ان کے لیے ایک مشعل راہ ثابت ہوا۔ ان کا کہنا تھا، ''جب آپ کسی دوسرے ملک میں یا دوسری ثقافت میں جاتے ہیں تو آپ کو کھلے دل کا مظاہرہ کرنا چاہیے، چیزوں کو ویسے ہی دیکھنا چاہیے، جیسی وہ ہیں۔‘‘

Schwester Chris und ihr Kampf gegen Tuberkulose in Pakistan
تصویر: Arne Immanuel Bänsch/dpa/picture alliance

بہترین اردو بولنے والی اس جرمن ڈاکٹر کا مزید کہنا تھا، ''دوسری طرف انسان کو اپنی جڑوں اور بنیادی اقدار کو نہیں بھولنا چاہیے۔‘‘ پاکستان میں اکثریت مسلمانوں کی ہے اور مسیحی اقلیت میں ہے۔

سسٹر کرس یعنی ڈاکٹر کرسٹینے کا اس مسلم ملک میں رہنے کا تجربہ کیسا رہا؟ اس حوالے سے وہ کہتی ہیں، ''میں ہر سال جرمنی جاتے ہوئے سوچتی ہوں کہ اب مجھے پاکستان چھوڑ دینا چاہیے۔ لیکن اس ملک کی ثقافت کی ایک بہت بڑی طاقت احترام اور یہاں کی مہمان نوازی ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ''ہر کسی کو ایسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا، جو ایسی نہیں ہوتی، جیسی وہ چاہتا ہے۔ لیکن مجھے جب بھی ایسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا، تو ایک دن یا ایک ہفتے بعد یہی خیال آیا، کہ سب ٹھیک ہے، آگے کام کرتے ہیں۔‘‘

ا ا / ش ح (ڈی پی اے)