1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان اور بھارت کے درمیان قیام امن کے طویل فاصلے

1 اپریل 2011

داخلہ سیکریٹریوں کی کامیاب ملاقات اور بھارت میں گرما گرم کرکٹ میچ کے باوجود پائیدار امن کے لیے پاکستان کو ایک طویل راستہ طے کرنا ہے۔ اس لمبی دُوری کی وجہ اسلام آباد حکومت کو درپیش چیلنجز ہیں۔

https://p.dw.com/p/10m2j
پاکستانی وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اپنے بھارتی ہم منصب منموہن سنگھ کے ساتھتصویر: AP

خبررساں ادارے روئٹرز نے اپنے تجزیے میں لکھا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان امن کی شاہراہ پر ناکام کوششوں کا ایک انبار لگا ہوا ہے۔ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی حلقوں کی جانب سے بدستور مخالفت کا سامنا بھی ہے۔

ایک سینئر انٹیلی جنس اہلکار، جن کا نام نہیں بتایا گیا، کا کہنا ہے، ’یہ کام کسی اونچے پہاڑ پر چڑھنے کی مانند ہے۔‘

پاکستان میں اسلام پسندوں کی جانب سے کسی اور اہم شخصیت کا قتل، قبل ازوقت انتخابات یا بھارت میں دہشت گردانہ حملہ، ان میں سے کچھ بھی نئی دہلی حکومت کے ساتھ امن کے قیام کے لیے گیلانی کی کوششوں کو ناکام بنا سکتا ہے۔

تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ یوسف رضا گیلانی کی ایک مشکل اندروں ملک ان کی حکومت کی کمزور حیثیت بھی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی قیادت میں قائم اتحادی حکومت کو اپوزیشن کی جانب سے نااہلی اور بدعنوانی کے الزامات نے بھی عدم تحفظ کا شکار بنا رکھا ہے۔

بھارتی شہر ممبئی میں نومبر 2008ء میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں نے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات مزید کشیدہ بنا دیے تھے۔ ان حملوں کے بعد نئی دہلی حکومت نے امن مذاکرات کا سلسلہ منقطع کر دیا تھا۔

روئٹرز کے مطابق سینئر انٹیلی جنس اہلکار نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات بہتر ہونے چاہئیں۔ ان کا کہنا ہے، ’مذاکرات تو ہمیشہ اچھے ہوتے ہیں۔ ہمیں باہمی تعلقات کا پھر سے تعین کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم دائمی دشمنی پال کر زندہ نہیں رہ سکتے۔‘

مخالفین کا کہنا ہے کہ بھارت کے ساتھ تعلقات میں خاطرخواہ بہتری کے لیے گیلانی کو سیاسی مینڈیٹ حاصل نہیں۔ بھارت کے ساتھ امن کی حمایت کرنے ولی مذہبی جماعت جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کے سینئر رہنما حافظ حسین احمد کہتے ہیں، ’گیلانی اس عمل کو آگے بڑھانے کی حیثیت میں نہیں۔‘

ان کا مزید کہنا ہے، ’اس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ایک ایسا شخص جو صدر کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے میں ناکام رہا اور اپنی کابینہ کو بھی مناسب انداز سے نہیں چلا سکا، اس سے اور کیا توقع کی جا سکتی ہے۔‘

اپوزیشن پارٹی پاکستان مسلم لیگ (پی ایم ایل۔این) کے ترجمان احسن اقبال کا کہنا ہے، ’اندرون ملک کمزور کوئی بھی حکومت بیرون ممالک کے ساتھ تعلقات میں نہ تو اچھی ہو سکتی ہے اور نہ ہی کامیاب۔‘

Pervez Musharraf
پاکستان کے سابق صدر اور فوجی سربراہ پرویز مشرفتصویر: dpa - Report

پی ایم ایل۔این کے رہنما نواز شریف نے 1997ء میں وزیر اعظم کی حیثیت سے بھارت کے ساتھ مذاکرات کا عمل شروع کیا تھا۔ تاہم اس وقت بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے معاملے پر سابق آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کی مداخلت کی وجہ سے وہ سلسلہ بھی آگے نہ چل سکا اور بلآخر مشرف نواز شریف کو حکومت سے ہٹاتے ہوئے اقتدار میں آ گئے۔

’اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ فوج ہی بیوروکریسی میں شامل اپنے اتحادیوں کی حمایت سے خارجہ پالیسی کا تعین کرتی ہے،‘ یہ کہنا ہے کہ نجی انٹیلی جنس کمپنی مڈل ایسٹ اینڈ ساؤتھ ایشیا فار اسٹراٹفورڈ کے اعلیٰ تجزیہ کار کامران بخاری کا۔

فوج کے ایک اعلیٰ عہدے دار نے نام ظاہرنہ کرنے کی شرط پر روئٹرز کو بتایا ہے کہ فوج بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتی ہے، لیکن یہ اس کی شرائط پر قائم ہونے چاہئیں۔

رپورٹ: ندیم گِل

ادارت: عدنان اسحاق

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں