1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان اور افغان طالبان کے لئے امریکا کا نرم گوشہ

عبدالستار، اسلام آباد
7 مارچ 2018

امریکا کی طرف سے افغان طالبان اور پاکستان کی شکایات کو جائز قرار دینے کے بیان کو پاکستان میں کئی حلقے بہت اہم قرار دے رہے ہیں۔ لیکن کہیں یہ بیان امریکی چال تو نہیں؟

https://p.dw.com/p/2tt0w
Afghanistan Taliban-Gruppe unterstüzt TAPI-Projekt
تصویر: DW/S. Tanha

انگریزی روزنامہ ڈان کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکا نے کہا ہےکہ پاکستان اور افغان طالبان کی شکایات جائز ہیں اور یہ کہ واشنگٹن ان شکایات پر بات چیت کرنے کے لئے تیار ہے۔ اخبار کا کہنا ہے کہ پاکستانی اور امریکی حکام کے درمیان آنے والے دنوں میں بات چیت شروع ہوگی۔

کچھ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ یہ صرف ایک امریکی چال ہے جس میں وہ مذاکرات کی پیشکش کر کے طالبان کو ان مذاکرات کی ناکامی کاذمہ دار ٹھہرا دے گا جب کہ کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ واشنگٹن مذاکرات میں مخلص ہے اور وہ واقعی افغان جنگ کاحل مذاکرات کے ذریعے چاہتا ہے۔

اس امریکی بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے معروف دفاعی تجزیہ نگار جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’امریکا کو معلوم ہے کہ افغان طالبان کا پہلا مطالبہ یہ ہے کہ امریکا افغانستان سے نکلے۔ یہ وہ مطالبہ ہے جو امریکا کبھی بھی پورا نہیں کرے گا کیونکہ وہ خطے میں رک کر پاکستان، ایران، روس اور چین پر نظر رکھنا چاہتا ہے۔ افغان طالبا ن کی یہ شکایت رہی ہے کہ امریکا ایک طرف مذاکرات کی بات کرتا ہے اور دوسری طرف وہ ان کے لوگوں پر سفری پابندیاں لگاتا ہے اور انہیں دہشت گرد قرار دیتا ہے۔ اس سے زیادہ بڑی پیشکش تو اشرف غنی نے حا ل ہی میں کی ہے۔ انہوں نے تو طالبان کو پاسپورٹ جاری کرنے، کابل میں دفتر کھلونے سمیت کئی اہم پیشکشیں کی ہیں۔ لیکن ان پیش کشوں سے پہلے آپ کو امریکہ کی نیشنل سیکیورٹی پالیسی کا معطالعہ کرنا چاہیے، جہاں وہ روس اور چین کو ایک طریقے سے اپنا دشمن قرار دے رہا ہے۔ ٹلرسن پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ اب دہشت گردی امریکا کا مسئلہ نہیں۔ تو اس سارے تناظر میں اگر امریکی بیان کو دیکھا جائے تو یہ صرف ایک چال ہے۔‘‘

Donald Trump
تصویر: picture-alliance/AP Images/C. Kasters

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’ممالک کو سمجھنے کے لئے ان کی تحریری پالیسی کو دیکھنا ہوتا ہے اور اس پالیسی میں وہ بھارت کو اس خطے میں کردار دینا چاہتے ہیں۔ چین کا راستہ روکنا چاہتے ہیں۔ پاکستان کے لئے مشکلات پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ تو پھر یہ کیسے مان لیا جائے کہ امریکا اس پیش کش کے بعد مذاکرات کرے گا اور پھر یہاں سے نکل جائے گا۔ امریکا اب اس خطے میں طویل عرصے تک قیام کرنا چاہتا ہے۔ لہذا اس بیان کو ایک چال سے زیادہ نہ سمجھا جائے۔‘‘

لیکن لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار احسن رضا کا خیال ہے کہ امریکا کی معاشی مجبوری اسے طالبان اور پاکستان کے لئے نرم گوشہ پیدا کرنے پر مجبور کر رہی ہیں۔’’یہ اب کوئی خفیہ بات نہیں ہے کہ افغان طالبان کے امریکی کمپنی یونی کول سے مراسم تھے۔ اور یہ کمپنی ٹاپی کی پائپ لائن ڈالنا چاہتی تھی۔ بعد میں طالبان کی طرف سے شدید انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر اس کمپنی کو پیچھے ہٹنا پڑا۔ اب امریکا نے ان پرانے تعلقات اور روابط کو زندہ کرنے کی کوشش کی ہوگی۔ مسئلہ یہ ہے کہ ٹاپی کے لئے دو اہم فریق ہیں ایک پاکستان اور دوسرے طالبان۔ یہ پائپ لائن اس وقت تک پایہ ء تکمیل تک نہیں پہنچ سکتی جب تک طالبان افغانستان میں امن قائم کرنے میں مدد نہ کریں اور پاکستان اس پائپ لائن کو بھارت تک رسائی نہ دیں۔ لہذا امریکا ان دونوں فریقین کو منانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اور یہ بیان اس ہی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔‘‘

Afghanistan Kabul Friedens-Konferenz
تصویر: Reuters/O. Sobhani

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ روس اور داعش بھی ان محرکات میں سے ہیں، جو تمام فریقین کو افغانستان میں امن قائم کرنے کے لئے مجبور کر رہے ہیں۔’’روس بھی افغانستان میں مذاکرات کے ذریعے امن قائم کرنا چاہتا ہے۔ اگر امریکا اس دوڑ میں پیچھے رہا تو اس کی عالمی قیادت پر سوالات اٹھیں گے۔ طالبان اس لئے مذاکرات کرنا چاہتے ہیں کیونکہ ان کے لوگ جنگ کی طوالت کی وجہ سے داعش میں شمولیت اختیار کر رہے ہیں۔ اگر یہ جنگ چلتی رہی تو طالبان کے لوگ اسی طرح داعش میں شمولیت اختیار کرتے رہیں گے۔ لہذا طالبان بھی چاہتے ہیں کہ اس کا مذاکرات کے ذریعے کوئی حل نکلے۔‘‘

کابل سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار وحید اللہ عزیزی نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’امریکا کو معلوم ہے کہ اس مسئلے کا کوئی عسکری حل نہیں ہے۔ اس لئے وہ بھی اشرف غنی کی پیش کش کی حمایت کرتا ہے، جس میں انہوں نے طالبان سے غیر مشروط مذاکرات شروع کرنے کی بات ہے۔ ٹاپی پائپ لائن گیم چینجر ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ اس نے دوستوں اور دشمنوں کو ایک ساتھ بٹھا دیا ہے۔ طالبان، جنہوں نے اس پروجیکٹ پر نوے کی دہائی میں کام شروع کیا تھا، بھی اس پروجیکٹ کی حمایت کرتے ہیں۔