1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاک چین اقتصادی راہداری، تحفظات دور کرنے کے لیے کمیٹی قائم

شکور رحیم، اسلام آباد15 جنوری 2016

پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف نے پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے پر مختلف پارلیمانی جماعتوں کے تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی کے ساتھ اپنی سربراہی میں ایک دس رکنی اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی تشکیل دینے کا اعلان کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1HeFZ
Pakistan Sitzung in Islamabad
مختلف صوبوں اور پارلیمانی جماعتوں کے تحفظات دور کرنے کے لیے وزیر اعظم نواز شریف کی قیادت میں اجلاس جمعہ پندرہ جنوری کو اسلام آباد میں ہواتصویر: PID

پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے (سیپیک) پر پارلیمانی جماعتوں اور صوبے خیبرپختونخوا کی حکومت کے تحفظات دورے کرنے کے لیے یہ اجلاس جمعے کے روز وزیر اعظم نواز شریف کی سربراہی میں منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت اور سندھ میں حکمران پاکستان پیپلز پارٹی کی نمائندگی نہیں تھی۔

اجلاس کے بعد جاری کیے گئے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ’ایک راہداری، مختلف راستے‘ کے اصول کے تحت سیپیک منصوبے کے مغربی روٹ پر کام ترجیحی بنیادوں پر ڈھائی سال کے عرصے میں پندرہ جولائی دو ہزار اٹھارہ تک مکمل کر لیا جائے گا۔ پہلے مرحلے میں مغربی روٹ چار رویہ ہو گا، جس کو چھ رویہ کرنے کی گنجائش موجود ہو گی اور مغربی راہداری کی تعمیر کے لیے زمین خیبر پختونخوا حکومت مہیا کرے گی۔

اعلامیے کے مطابق سیپیک منصوبے پر صوبوں کے ساتھ مشاورت کے لیے وزیراعظم کی سربراہی میں اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔ سیپیک پر پارلیمانی کمیٹی کے سربراہ، منصوبہ بندی و ترقی، پانی و بجلی، ریلوے، مواصلات کے وفاقی وزراء، چاروں صوبوں اور گلگت بلتستان کے وزرائے اعلیٰ اس کمیٹی کے رکن ہوں گے۔ صوبوں کےساتھ معلومات کے تبادلے کے لیے وزارت منصوبہ بندی میں ایک خصوصی سیل قائم کیا جائے گا۔

اعلامیے کے مطابق مغربی روٹ پر صنعتی پارکس کا قیام صوبوں کی مشاورت سے کیا جائے گا اور ان پارکس میں مطلوبہ سہولیات کی فراہمی صوبوں اور وفاق کی مشترکہ ذمہ داری ہو گی۔

اعلامیے میں یہ بھی کہا گیا ہےکہ اجلاس کے شرکاء نے اقتصادی راہداری کے منصوبے کی تعمیر کے لیے مکمل تعاون کا اعادہ کرتےہوئے اس بات پر اتفاق کیا کہ نئے ادارہ جاتی فریم ورک سے مستقبل میں علاقائی تحفطات دور ہوں گے۔

اس اجلاس کے بعد خیبر پختوانخواہ کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے ذرائع ابلاغ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کے پی کے میں گیس، بجلی، بنیادی ڈھانچے اور ریلوے ٹریک کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ان کے صوبے کو یہ سہولیا ت مہیا نہ کی گئیں تو پھر ان کے لیے یہ اقتصادی راہداری بس ایک سڑک ہی ہو گی۔

پرویز خٹک نے کہا:’’ہم نے ان سے عہد لیا ہے کہ سب چیزیں پوری کریں گے تو تب جاکر بات بنے گی۔ اب آئندہ کے لیے کمیٹی بن گئی ہے، منصوبہ بندی ڈویژن کے ساتھ بیٹھ کر ہم بات کریں گے، اپنا مقدمہ پیش کریں گے۔ ہمیں وقت کا تعین کرنے کے ساتھ کہ منصوبے کب مکمل ہوں گے، فنڈنگ کہاں سے آئے گی، یہ سب پتہ چلنا چاہیے۔‘‘

عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما افراسیاب خٹک نے کہاکہ ’اس سے قبل اٹھائیس مئی کو ایک کل جماعتی کانفرنس منعقد ہوئی تھی، ہم نے اس کے سب فیصلوں کو تسلیم کیا تھا لیکن جب بجٹ آیا تو اس میں راہداری منصوبے کے مغربی روٹ کے لیے نہیں بلکہ مشرقی روٹ کے لیے پیسے مختص کیے گئے تھے‘۔ انہوں نے کہا کہ ’ہمیں آج بھی یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ کے پی کے، فاٹا اور بلوچستان کے پسماندہ علاقوں کو ترقی دی جائے گی‘۔ افراسیاب خٹک نے کہا:’’ہم دیکھیں گے، مانیٹرنگ کریں گے اور حکومت کی مدد کریں گے لیکن اگر خدانخواستہ اس پر عملدرآمد نہیں ہوتا تو پھر عوام کی آواز کو بلند کریں گے‘۔

Karte China Pakistan geplanter Wirtschaftskorridor Gwadar - Kaschgar
چین اور پاکستان نے گزشتہ سال چھیالیس ارب ڈالرز کی لاگت سے چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کی بنیاد رکھی تھیتصویر: DW

خیال رہے کہ چین اور پاکستان نے گزشتہ سال چھیالیس ارب ڈالرز کی لاگت سے چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کی بنیاد رکھی تھی۔ اس منصوبےکے تحت چین کو بذریعہ سڑک اور ریل گوادر کی بندرگاہ سے ملایا جائے گا۔

پیر کو وزیر اعظم کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں پیپلز پارٹی کی عدم شرکت کے بارے میں سرکاری طور پر کچھہ نہیں کہا گیا تاہم تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی کا کہناتھا کہ اجلاس میں سندھ کے صوبے کی نمائندگی نہیں تھی۔ ایک سوال کے جواب مین شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا:’’میرے علم میں نہیں کہ انہیں (پیپلزپارٹی) کیوں نہیں بلایا گیا۔ یہ حکومت ہی بتا سکتی ہے۔‘‘

خیال رہے کہ سندھ کی حکومت نے بھی اقتصادی راہداری کے منصوبے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا تاہم گزشتہ روز قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ حکومت نے انہیں آخری لمحات میں مدعو کیا، جو مناسب نہیں کیونکہ وہ پہلے سے طے شدہ پروگرام کے تحت سندھ جا رہے ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید