1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتپاکستان

پاک افغان سرحدی کشیدگی میں کمی کے لیے مذاکرات بے نتیجہ ختم

19 نومبر 2022

پاکستان مبینہ طور پر افغان علاقے سے پاکستانی سکیورٹی اہلکاروں کو نشانہ بنانے والے افراد کی حوالگی کا مطالبہ کر رہا ہے۔ سرحدی کشیدگی سے دونوں جانب سماجی اور کاروباری تعلقات متاثر ہو رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4JmcR
Pakistan Afghanistan l Sicherheitskraft an der Grenze in Chaman
تصویر: Akhter Gulfam/dpa/picture alliance

پاکستانی صوبے بلوچستان کے ضلع چمن کے قریب پاکستانی حکام اورافغان طالبان کے درمیان سرحدی امور کی سلامتی کے لیے ہونے والے مذاکرات ایک مرتبہ پھر بغیر کسی نتیجے کے ختم ہوگئے ۔ پاکستان اور افغانستان کے سرحدی حکام کے درمیان انیس نومبر بروز ہفتہ  ایک اہم اجلاس ہوا ۔ اس اجلاس میں مشترکہ سرحد کی سلامتی سے متعلق مختلف امور کا جائزہ لیا گیا۔ اس اجلاس کے دوران طالبان نمائندوں نے پاکستانی حکام کو گزشتہ دنوں  افغان سرحد سے پاکستانی سکیورٹی فورسز پر کی گئی فائرنگ سے متعلق واقعہ کے بعد کابل حکومت کی طرف سے اب تک کیے گئے اقدامات سے  آگاہ کیا۔

چمن میں پاکستانی فوج اور طالبان کے مابین سرحدی جھڑپ

Pakistan Afghanistan Grenze
افغان طالبان پاکستانی حکام کی جانب سے سرحد پر حفاظتی باڑ لگائے جانے کے حق میں نہیںتصویر: Abdul Ghani Kakar/DW

اسپین بولدک کے علاقے میں فائرنگ کے اس واقعہ کے نتیجے میں ایک پاکستانی سکیورٹی اہلکار ہلاک اور دو زخمی ہو گئے تھے۔ اس حملے کے بعد پاکستانی سکیورٹی فورسز اور افغان طالبان کے مابین کئی گھنٹوں تک فائرنگ کا تبادلہ ہوا تھا۔ جھڑپ کے دوران بھگدڑ مچ جانے سے کئی راہگیر بھی زخمی ہوئے تھے۔ زرائع کے مطابق اس اجلاس کے دوران طالبان نے سرحد پر قیام امن کی بحالی کے لیے اپنا بھرپور کردار اداکرنے کی یقین دہانی کرائی۔ طالبان نمائندوں نے سرحدی امور کی سلامتی سے متعلق اپنے تحفظات سے بھی پاکستانی حکام کو آگاہ کیا گیا۔

عدم اعتماد کی فضا

 چمن میں تعینات ایک سینئر سیکیورٹی اہلکار نے نام ظاہرنہ کرنے کی شرط پرڈی ڈبلیوکو بتایا کہ طالبان کو ان حملہ آوروں کی سی سی ٹی فوٹیج بھی فراہم کی گئی ہے، جنہوں نے پاکستانی اہلکاروں پر فائرنگ کی تھی۔ اس اہلکار کا مزید کہنا تھا، '' افغان سرزمین مسلسل پاکستان کے خلاف استعال ہو رہی ہے۔ حالیہ حملہ بھی گزشتہ کچھ عرصے کے دوران پیش آنے والے دیگر واقعات کا ایک تسلسل ہے ۔ افغان طالبان کی موجودگی میں امن دشمن عناصر کے یہ حملے کئی سوالات پیدا کر رہے ہیں ۔ سرحد کی سیکیورٹی کے لیے افغان حکام کو بھی ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کرنے ہوں گے۔‘‘

خونریز لڑائی کے بعد چمن کی پاک افغان سرحدی گزرگاہ تا‌حال بند

Pakistan Afghanistan Grenze
پاکستان اور افغانستان کے مابین چوبیس سو کلو میٹر طویل سرحد کو ڈیورنڈ لائن بھی کہا جاتا ہےتصویر: Abdul Ghani Kakar/DW

اس سیکیورٹی اہلکار کا کہنا تھا کہ افغان حکام کے ساتھ اب تک ہونے والے مذاکرات میں کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہوئی۔ انہوں نے مزید کہا، ''سرحدی سکیورٹی کے حوالے سےدو طرفہ مذاکرات اس سے قبل بھی کئی بار ہوچکے ہیں ۔ ان مذاکرات میں پاکستانی حکام نے مسلسل جن امور کی نشاندہی کی ہے افغان حکومت انہیں نظرانداز کرتی آرہی ہے ۔حالیہ مذاکرات میں اگرچہ طالبان نے نتیجہ خیز اقدامات کی بات کی ہے لیکن جب تک عملی اقدامات نہیں کیے جاتے بہتری کی امید نہی کی جا سکتی۔‘‘ اس سکیورٹی اہلکار کا کہنا تھا کہ پاکستان نے افغانستان سے متصل سرحد پر اپنی حدود میں باڑ لگانے کا منصوبہ اسی لیے شروع کیا تھا تاکہ سرحد پرغیرقانونی آمدورفت کا خاتمہ کیا جاسکے۔

 میل جول اور کاروباری سرگرمیاں متاثر

 پاکستان اور افغانستان کےمابین سرحد پرحالیہ پر تشدد واقعات کے بعد چمن میں سرحد پر واقع پاک افغان دوستی گیٹ کو پانچ روز قبل غیرمعینہ مدت تک بند کر دیا گیا تھا۔ سرحد پر ہر قسم کی آمدورفت اورافغان ٹرانزٹ ٹریڈ بھی معطل ہے،جس سے  دونوں جانب کے تاجروں کو بھاری مالی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔

Pakistan Afghainistan Grenzgebiet
سرحد کے دونوں جانب کے مقامی قبائل کا کہناہے کہ پاک افغان تعلقات میں کشیدگی سے وہ سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیںتصویر: Abdul Ghani Kakar/DW

دونوں ہمسایہ ممالک کے مابین ناخوشگوار واقعات سے قیام امن کے ساتھ ساتھ مقامی قبائل بھی متاثر ہورہے ہیں۔ پاک افغان سرحد پرمقامی دیہات میں رہائش پذیر 55 سالہ ، صالح محمد افغانسان کے علاقے اسپین بولدک کے ایک مارکیٹ میں ملازمت کرتے ہیں۔ گزشتہ کئی دنوں سے سرحد کی بندش کے باعث وہ کام پر نہیں جا رہے ہیں۔

 پاک افغان سرحد: چمن بارڈر بند کر دیا گیا

 صالح محمد کہتے ہیں کہ دہشت گردی کے واقعات سے سب سے زیادہ نقصان مقامی قبائل کو پہنچ رہا ہے ۔ ڈی ڈبلیوسے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، '' میں اپنے خاندان کا واحد کفیل ہوں گزشتہ دو دہائیوں سے اسپین بولدک میں کام کررہا ہوں ۔ طالبان کے دور سے قبل بھی یہاں پر تشدد واقعات پیش آتے رہے ہیں لیکن صورتحال اس قدرخراب نہیں تھی۔ مقامی قبائل کے لوگ سرحدی کشیدگی سےاس قدر متاثرہورہے ہیں کہ اب ان کے لیے جینا بھی محال ہوتا جا رہا ہے ۔ ہمیں نہ پاکستانی حدود میں چین میسر ہے نہ ہی افغانستان میں ۔ پسماندہ علاقوں میں مقیم یہ لوگ سرحد کی بندش سے دو وقت کی روٹی سے بھی محروم ہوجاتے ہیں ۔ "

ٹرکوں کی طویل قطاریں

پاک افغان سرحد کی بندش سے  سرحد کے دونوں اطراف افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے ٹرکوں کی لائنیں لگ چکی ہیں ۔ ان ٹرکوں میں سے بعض میں   تازہ پھل ، سزباں اور دیگر اشیائے خور و نوش لدی ہوی ہیں۔بلوچستان چیمبراف کامرس کے نمائندے ، حاجی ولی خان کہتے ہیں کہ پاک افغان سرحد کی بندش سے تاجروں کو کروڑوں روپے کا نقصان پہنچا ہے ۔

 

Pakistan Afghainistan Grenzgebiet
سرحدی کشیدگی کی وجہ سے پاک افغان سرحد کی دونوں جانب سینکڑوں ٹرک پھنسے ہوئے ہیںتصویر: Abdul Ghani Kakar/DW

 ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، " پاک افغان سرحد پر حالیہ کشیدگی کے معاملات دن بدن سنگین شکل اختیار کرتے جا رہے ہیں ۔سرحد کی بندش سے اس وقت چمن میں 400  جبکہ افغانستان کے حدود میں 300 سے ذائد ٹرک پھنسے ہوئے ہیں۔ کارگو سے لدے سامان کی نقل وحرکت پرتعطل برقرار ہے ۔ پاکستان سے افغاستان بڑے پیمانے پر آٹا، گھی چینی اور دیگر بنیادی ضرورت کاسامان بھی درامد کیا جاتا ہے۔ ٹرکوں میں لدے تازہ پھل اور سزیاں خراب ہوتی جارہی ہیں تجارتی راہداری کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرنے پربھی کوئی توجہ نہیں دی جا رہی ہے ۔ "

 افغان شہری علاج معالجے کے لیے بھی بڑے پیمانے پر پاکستان کا رخ کرتے ہیں۔ باب دوستی گیٹ چمن کی بندش سے ایسے افغان شہری بھی شدید مشکلات کا شکار ہیں جو کہ بلوچستان میں داخل نہیں ہوپارہے ہیں ۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ پاکستانی سکیورٹی اہلکاروں پر افغان سرزمین سے ہونے والے حالیہ حملے کی تحقیقات میں بھی تاحال کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔  

پاکستان کا افغان شہریوں کے لیے فری میڈیکل کیمپ