1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’پاسبان‘، انتہا پسندی سے متعلق شعور و آگاہی کی کوشش

31 مئی 2015

گزشتہ برس پشاور آرمی پبلک اسکول پر طالبان کے بہیمانہ حملے کے بعد مزاحیہ خاکوں کے خالقین مصطفیٰ حسنین اور گوہر آفتاب نے فیصلہ کیا کہ پرتشدد انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے کچھ کرنے کا وقت آ گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1FZfn
تصویر: DW/F. Khan

پاکستانی تاریخ میں کسی اسکول پر ہونے والے بدترین دہشت گردانہ حملے سے قبل بھی مصفطیٰ حسنین اور گوہر آفتاب اپنے ملک کی خاطر کچھ کرنے کی لگن رکھتے تھے۔ وہ بیس ملین آبادی والے اس ترقی پذیر ملک میں بدعنوانی کے خاتمے کے لیے ایک مہم کی تیاری کررہے تھے۔ تاہم گزشتہ برس دسمبر میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر حملے کے نتیجے میں 150 افراد کی ہلاکت نے دیگر شہریوں کی طرح ان دونوں کو بھی جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ تب انہوں نے فیصلہ کیا کہ انہیں پرتشدد انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے کچھ کرنا چاہیے۔

برطانیہ سے تعلیم یافتہ کمپیوٹر گرافکس کے ماہر مصطفیٰ حسنین نے 2013ء میں ’کری ایٹیو فرنٹیئرز‘ نامی ایک کمپنی بنائی تھی۔ لاہور میں قائم اس کمپنی میں اس وقت بیس ملازمین کام کر رہے ہیں، جن میں نوجوان آرٹسٹ، پروگرامرز اور رائٹرز بھی شامل ہیں۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے حسنین نے بتایا، ’’آرمی پبلک اسکول کا سانحہ میرے لیے تبدیلی کا باعث بنا۔ میں نے گوہر سے کہا کہ ہمیں اس حوالے سے کچھ ضرور کرنا چاہیے۔‘‘

حسنین کے مطابق پشاور اسکول سانحے کے بعد وہ عوام کے ساتھ تھے۔ انہوں نے اس حوالے سے منعقد کی جانے والی دعائیہ تقریبات میں بھی شرکت کی لیکن وہ اس سے کچھ زیادہ کرنے کو بے قرار تھے، ’’ہم موم بتیاں لے کر خصوصی دعائیہ تقریبات میں شریک بھی ہوئے لیکن ہم اس بارے میں کچھ مزید کرنے کی خواہش رکھتے تھے۔‘‘

اسی خواہش نے حسنین اور آفتاب کو ’پاسپان‘ نامی ایک مزاحیہ خاکوں کی سیریز پر کام شروع کرنے کی تحریک دی۔ تین حصوں پر مشتمل اس کامک بک سیریز کا مقصد انتہا پسندی کے حوالے سے شعور و آگاہی دینا ہے۔ اس سیریز کی کہانی ایک کالج کے قریبی دوستوں کے گرد گھومتی ہے۔ ان دوستوں میں سے ایک کالج چھوڑ کر ایک مذہبی مدرسے سے وابستہ ہو جاتا ہے۔ یہ مدرسہ بظاہر امدادی کاموں میں پیش پیش ہوتا ہے تاہم دوستوں کے اس گروپ کو شک ہوتا ہے کہ اس مدرسے کے عزائم کچھ اور ہی ہیں۔

پاسبان نامی اس کامک بک کی پندرہ ہزار کاپیاں یکم جون سے لاہور، ملتان اور لودھراں کے مختلف اسکولوں میں مفت تقسیم کی جائیں گی جبکہ مختلف بک اسٹورز پر بھی یہ سیریز دستیاب ہو گی۔ اس سیریز کی ایپلیکیشن بھی بنائی گئی ہے، جو ایپل اور اینڈرائڈ سمارٹ فونز اور ٹیبلٹس سے ڈاؤن لوڈ کی جا سکے گی۔

Pakistan Trauer nach Taliban-Angriff in Pakistan
پشاور آرمی پبلک اسکول پر طالبان کے بہیمانہ حملے کے نتیجے میں زیادہ تر طالب علم ہی مارے گئے تھےتصویر: Reuters/A. Soomro

اس سیریز کا اردو ترجمہ پاکستان کے معروف شاعر اور ڈرامہ نویس امجد اسلام امجد نے کیا ہے جبکہ انگریزی میں اس کے خالق گوہر ہیں۔ لاہور کے معتبر تعلیمی ادارے ایچیسن سے فارغ التحصیل گوہر بتاتے ہیں کہ وہ تیرہ برس کے تھے، جب اس کالج کے ایک استاد نے انہیں ترغیب دی کہ وہ تعلیم اور اپنے ماں باپ کو چھوڑ کر کشمیر میں بھارتی فوج کے خلاف جہاد کرے۔ گوہر کے مطابق اس کرشماتی شخصیت کے مالک استاد سے وہ اتنے زیادہ متاثر ہوئے کہ انہوں نے جہاد میں شرکت کا فیصلہ کر لیا۔ اس وقت تیرہ سالہ گوہر البتہ اپنے والدین کی مداخلت کی وجہ سے جہاد کرنے نہ جا سکا۔

اب گوہر بتاتے ہیں کہ بچپن میں انہیں کس طرح غلط راستہ دیکھانے کی کوشش کی گئی تھی۔ اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے روایتی عقائد کی اقدار اور خوبیوں کی غلط تشریح کی جاتی ہے۔ اسلام میں شہادت کے تصور کو بھی بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔ گوہر کے بقول انہوں نے اپنی کامک بک سیریز میں آسان زبان اور سہل طریقے سے انہی موضوعات پر روشنی ڈالی ہے تاکہ بالخصوص بچوں اور نوجوانوں میں انتہا پسندی کے بارے میں شعور و آگاہی پیدا ہو سکے۔

آفتاب مزید کہتے ہیں، ’’ہم ایک ایسے نظریے کو فروغ دینا چاہتے ہیں کہ آپ کو غیر متشدد ہونے کے لیے سیکولر بننے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ کو ایسا مسلمان بننے کی ضرورت ہے، جو تشدد اور انتہا پسندی کو مسترد کرتا ہے، جسے چند گروہوں نے ہمارے بنیادی عقائد کا ایک اہم حصہ بنا دیا ہے۔‘‘