1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پارلیمان میں پہنچنے کے لیے اے ایف ڈی کی مسلمان مخالف مہم

20 ستمبر 2017

جرمنی کی انتہائی دائیں بازو کی سیاست جماعت AfD اپنی انتخابی مہم میں مسلمانوں سے خوف کی فضا پیدا کر رہی ہے۔ کیا اس کا جرمن انتخابات پر منفی اثر پڑے گا۔

https://p.dw.com/p/2kO5S
Deutschland AfD-Pressekonferenz mit Weidel und Gauland
تصویر: Reuters/A. Schmidt

اپنی انتخابی مہم کے آخری حصے کے دوران جرمنی کی انتہائی دائیں بازو کی عوامیت پسند سیاسی جماعت آلٹرنیٹیو فار ڈوئچ لینڈ نے اپنی توجہ کا مرکز مہاجرین کے مسئلے کی بجائے جرمن معاشرے میں بڑھتے ہوئے جرائم کو بنا لیا ہے۔ اس جماعت کے مطابق اس کی وجہ مسلمانوں کی مغربی معاشروں کے لیے روایتی مخاصمت ہے۔ اے ایف ڈی کی طرف سے یہ حکمت عملی جرمنی کی تیسری بڑی سیاسی جماعت بننے اور شاید مرکزی اپوزیشن جماعت بننے کی کوششوں کا حصہ ہے۔

24 ستمبر کو ہونے والے پارلیمانی انتخابات سے قبل پیر 18 ستمبر کو  اے ایف ڈی کی طرف سے اپنا پالیسی پیپر جاری کیا گیا۔ اس موقع پر اے ایف ڈی کے انتہائی سخت نقطہ نظر رکھنے والے الیگزانڈر گاؤلانڈ نے اسلام کو ایک ایسا ’’سیاسی مظہر‘‘ قرار دیا جو ’’جرمنی کا حصہ نہیں ہے‘‘۔

گاؤلانڈ کے بعد ان کی ساتھی امیدوار ایلِس ویڈل نے ایسے جرائم کے اعداد وشمار پیش کیے جن کے پیچھے مہاجرین یا سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کا ہاتھ تھا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ اس طرح جرمنی بھر میں بہت سے ایسے علاقے بن گئے ہیں جہاں جانا ممکن نہیں ہے۔

وِیڈل سے کہا گیا کہ وہ برلن میں کسی ’نو گو ایریا‘ کا نام بتائیں تو اس کے جواب میں انہوں نے ’کوٹ بُسر ٹور‘ اسکوائر کا نام لیا۔ یہ  علاقہ جرمن دارالحکومت برلن میں کروئسبرگ میں واقع ہے اور یہاں ترک نژاد باشندوں کی اکثریت آباد ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ پولیس نے شہر کے اس علاقے میں اپنی موجودگی بڑھا دی ہے اور سال 2017ء کے دوران اس علاقے میں جرائم کی تعداد میں کمی واقع ہوئی ہے۔

Deutschland AfD-Pressekonferenz mit Weidel und Gauland
ایلِس ویڈل نے ایسے جرائم کے اعداد وشمار پیش کیے جن کے پیچھے مہاجرین یا سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کا ہاتھ تھاتصویر: Reuters/A. Schmidt

رواں برس یعنی سال 2017ء کے دوران مہاجرین کی مخالفت کرنے والی جماعت  AfD کی مقبولیت میں کمی واقع ہوئی۔ اس کی ایک وجہ مہاجرین کی جرمنی آمد میں کمی بنی جس سے لگتا یہی ہے کہ جرمنی کو دو برس جس بحران کا سامنا تھا وہ اب ختم ہو چکا ہے۔ لہذا اب یہی لگتا ہے کہ انتہائی دائیں بازو کی یہ مقبولیت پسند جماعت اب اپنی ساری توجہ اسلام کے حوالے سے خوف پھیلانے پر مرکوز کر رہی ہے تاکہ انتخابات میں زیادہ سے زیادہ ووٹ حاصل کر سکے۔