1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

يوکرين کا بحران پاکستانی معيشت کو کيسے متاثر کر رہا ہے؟

عبدالستار، اسلام آباد
8 مئی 2022

یوکرین کے بحران اور عالمی منڈی میں تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے پاکستان کے معاشی مسائل کو مزید گھمبیر بنا دیا ہے۔ ماہرین متنبہ کر رہے ہیں کہ اگر دانشمندی کا مظاہرہ نہ کیا گیا تو ملک بڑے معاشی بحران کا شکار ہو سکتا ہے۔

https://p.dw.com/p/4Az79
Pakistan | Rupee
تصویر: Imago stock&people

يوکرين ميں جنگ کی وجہ سے پيدا ہونے والے بحران کی وجہ سے عالمی مارکیٹ میں گیس، تیل اور گندم سمیت کئی اشیاء کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔ اسی وجہ سے پاکستان کی معاشی صورت حال بھی متاثر ہو رہی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ چونکہ پاکستان کی معیشت کا انحصار در آمد کردہ اشیاء پر ہے، اس  ليے امپورٹ بل بڑھتا جا رہا ہے، جس سے معاشی مسائل مزید بڑھیں گے۔

اختلاف سیاسی، حملے ذاتی

انٹونی بلنکن اور بلاول بھٹو میں باہمی تعلقات پر تبادلہ خیال

پاکستان: تین سالوں میں کیا کچھ بدل گیا؟

یونیورسٹی آف سینٹرل پنجاب سے وابستہ معاشی امور کے ماہر ڈاکٹر قیس اسلم کا کہنا ہے کہ یوکرین گیس، گندم اور خوردنی تیل سمیت کئی چیزوں کو برآمد کرتا تھا۔ لیکن روس اور یوکرین میں جنگ کی وجہ سے سے ان اشیاء کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، '' اس بحران کی وجہ سے عالمی سطح پر تیل، گیس، گندم، خوردنی تیل اور دیگر اشیاء کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔ تیل کی قیمتوں ميں اضافے کی وجہ سے فریٹ کی قیمت بھی بڑھ گئی ہے اور خام مال، جو پاکستانی صنعت کار درآمد کرتے ہیں، ان کی قیمتیں بھی بڑھ رہی ہیں۔‘‘

ڈاکٹر اسلم کے بقول پاکستان کی 60 فیصد سے زیادہ بجلی کی پیداوار بھی تیل پر منحصر ہے ان تمام عوامل کے پیش نظر ملکی امپورٹ بل بہت بڑھ گیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق يہ 40 بلین ڈالرز کے قریب ہو گیا ہے۔

Pakistan Symbolbild Markt
تصویر: Arif Ali/Getty Images/AFP

کوئی ریلیف نہیں ملا

ڈاکٹر قیس اسلم کے مطابق پاکستان کو آئی ایم ایف، سعودی عرب یا چین سے معاشی ریلیف نہیں ملا اور اسی ليے قوی امکان ہے کہ اقتصادی مسائل مزید بڑھیں گے۔ پاکستان کے زر مبادلہ کے ذخائر امکاناً کم ہوں گے، پیداواری لاگت مزید بڑھے گی اور معیشت کو چلانے کے ليے مزید قرضے لینے پڑیں گے۔

خوردنی تیل اور گندم کا بحران

ڈاکٹر قیس اسلم کا کہنا تھا کہ بحران کے پیش نظر ممالک اپنے اندورنی معاشی مسائل کے بارے میں زیادہ فکر مند ہیں۔ ''انڈونیشیا نے خوردنی تیل کی ایکسپورٹ پر پابندی لگا دی ہے۔ خوردنی تیل کی پوری دنیا میں مانگ بڑھ رہی ہے اور انڈونیشیا میں ملکی ضروریات کی وجہ سے انہوں نے ایکسپورٹ پر پابندی لگا دی ہے۔ پاکستان خوردنی تیل کا ایک بڑا حصہ انڈونیشیا سے لیتا تھا، جو اب پاکستان کو عالمی مارکیٹ سے لینا پڑے گا اور وہ مزید مہنگا پڑے گا۔ اس کے علاوہ گندم کی پیداوار بھی توقع کے مطابق نہیں ہوئی اور وہ بھی درآمد کرنی پڑے گی اور یوکرین کے بحران کی وجہ سے اس کی قیمت بھی اوپر جائے گی۔‘‘

پاکستانی وزارت خزانہ میں ماضی میں مشیر کے طور پر کام کرنے والے معاشی ماہر ڈاکٹر خاقان نجیب کا کہنا ہے کہ عالمی مارکیٹ میں قیمتوں کے بڑھنے کی وجہ سے پاکستان میں گاڑیاں، موبائل، خام مال، مشینری اور غذائی اجناس مہنگی ہو گئی ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، ''ہمارا امپورٹ بل جی ڈی پی کا 25 فیصد ہو گیا ہے۔ اس کے علاوہ روپے کی قدر گری ہے، جس کی وجہ سے معیشت کو بہت دھچکا لگا ہے۔ پاکستان کو تین سے چار ملین ٹن گندم بھی امپورٹ کرنا ہے۔‘‘

بڑھتا ہوا امپورٹ بل

پاکستان میں کئی ناقدین بڑھتے ہوئے امپورٹ بل کو معیشت کے ليے نقصان دے قرار دیتے ہیں۔ خاقان نجیب کا کہنا ہے کہ بڑھتی ہوئی تیل کی قیمتوں کی وجہ سے یہ بل مزید بڑھ گیا ہے۔ ''پیٹرولیم مصنوعات کا بل سات اعشاریہ پانچ بلین ڈالر سے 15 بلین ڈالرز تک پہنچ گیا ہے۔ اور یہ صرف مالی سال 2022 کے پہلے نو مہینوں کی کہانی ہے۔ دسويں مہینے میں ہمارا تجارتی خسارہ اور بھی بہت بڑھ گیا ہے، جو تقریباً 40 بلین ڈالرز کے قریب ہو گیا ہے۔‘‘

سخت فیصلے کرنا ہی ہوں گے، مفتاح اسماعیل

صورت حال کا تجزیہ کرنے کی ضرورت

ڈاکٹر نجیب خاقان کا کہنا ہے کہ صورت حال کا تجزیہ کرنا چاہیے اور یہ سوال کرنا چاہیے کہ ہماری اتنی کم ایکسپورٹ کیوں ہيں۔ ان کے مطابق پاکستان کی ایکسپورٹس سن 1990 میں  جی ڈی پی کا سولہ فیصد تھیں، جو اب صرف دس فیصد رہ گئی ہيں۔ ''ہمیں گزشتہ تین دہائیوں کا سنجیدگی سے تجزیہ کرنا چاہیے اور اس پر غور کرنا چاہیے کہ شرح نمو کم کیوں ہے۔ حکومت کو تیل اور بجلی کی قیمتوں کو مارکیٹ سے ہم آہنگ کرنا چاہیے۔ امپورٹس کو کم کرنا چاہیے۔ تیل اور دوسری اشیاء کے استعمال میں بچت کرنی چاہیے اور اس کے علاوہ عالمی مالیاتی اداروں یا دوست ممالک سے جو پیسہ ملے اس کو اپنے زر مبادلہ کے ذخائر کو بڑھانے کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔‘‘