1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ویٹیکن نے فلسطین کو خود مختار ریاست تسیلم کر لیا

عدنان اسحاق2 جنوری 2016

ویٹیکن نے آج دو جنوری سے فلسطین کو باقاعدہ ایک ریاست کے طور پر تسیلم کر لیا ہے۔ اس سلسلے میں فریقین کے مابین گزشتہ چھ برسوں سے مذاکرات جاری تھے۔

https://p.dw.com/p/1HXCe
تصویر: Getty Images/AFP/T. A. Clary

کیتھولک مسیحیوں کے مرکز ویٹیکن کی جانب سے جاری بیان کے مطابق گزشتہ برس جون کے آخر میں فلسطین اور ویٹیکن کی مابین طے پانے والے معاہدے پر آج سے عمل درآمد شروع ہو گیا ہے۔ اس بیان میں مزید بتایا گیا کہ اس سلسلے میں تمام تر شرائط پوری ہو گئی ہیں۔ اس کے بعد سے ویٹیکن کی دستاویزات میں فلسطین کو ایک انتظامیہ کی بجائے ایک ملک کے طور لکھا جائے گا۔ اس بیان کے مطابق ’’یہ خطے کی کشیدہ صورتحال کو پر امن مذاکرات کے ذریعےحل کرنے کی خواہش کے اعادہ بھی ہے‘‘۔

ڈیڑھ برس قبل پوپ فرانسس کے مقدس سرزمین کہلانے والے اس خطے کے دورے کے دوران بھی ویٹیکن نے سفری دستاویزات پر ’’Stato di Palestina ‘‘ یعنی فلسطینی ریاست درج کیا تھا۔ گزشتہ برس مئی میں پاپائے روم نے روم میں فلسطینی صدر محمود عباس سے ملاقات کی تھی۔ اس موقع پر پوپ نے عباس کو ’’ امن کا فرشتہ ‘‘ قراردیا تھا۔ ویٹیکن کے بیان میں کہا گیا ہے کہ پوپ فرانسس نے صدر محمود عباس کو امن کا فرشتہ فلسطین اور اسرائیل کے مابین ہم آہنگی بڑھانے کے لیے کہا تھا اور ان کا مقصد اسرائیل کے جذبات کو ٹھیس پہنچانا نہیں تھا۔ تاہم اسرائیل کی جانب سے اس پر سخت ردعمل سامنے آیا تھا۔

Papst Franziskus in Bethlehem
تصویر: Ahmad Gharabli/AFP/Getty Images

ویٹیکن اور فلسطینی ریاست کے مابین طے پانے والا معاہدہ بتیس نکات پر مشتمل ہے اور یہ چھ سال تک جاری رہنے والے مذاکرات کا نتیجہ ہے۔ اس میں کلیسا اور ان علاقوں کے باہمی تعلقات کو مرکزی حیثیت حاصل ہے، جو فلسطین کے زیر انتظام ہیں۔ اس معاہدے پر گزشتہ برس چھبیس جون کو فلسطینی وزیر خارجہ ریاض المالکی اور ویٹیکن کے ان کے ہم منصب پاؤل رچرڈ نے دستخط کیے تھے۔ فلسطین کو اب تک دنیا کے ایک سو تیس سے زائد ممالک ایک خود مختار ریاست کے طور پر تسیلم کر چکے ہیں۔

اسرائیلی وزارت خارجہ نے اس نئی پیش رفت پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس معاہدے سے امن کے لیے کسی اتفاق رائے تک پہنچنا مشکل ہو گیا ہے اور فریقین کے مابین براہ راست امن بات چیت کے امکانات بھی معدوم ہو گئے ہیں۔ ’’اسرائیل یہ یکطرفہ فیصلہ تسلیم نہیں کرے گا‘‘۔ اسرائیل اور ویٹیکن کے مابین گزشتہ بیس برسوں سے مذاکرات جاری ہیں تاہم ابھی تک کوئی بنیادی معاہدے طے نہیں پایا ہے۔