1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ویسٹ بینک: اسرائیلی فوج کا فلسطینی گاؤں کے انہدام کا فیصلہ

23 ستمبر 2018

اسرائیلی فوج نے مغربی کنارے کے مقبوضہ علاقے میں یہودی آباد کاروں کی ایک بستی کے باہر فلسطینیوں کے ایک گاؤں کو منہدم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ گاؤں کے رہائشیوں کو یکم اکتوبر تک اپنے گھر خالی کرنے کے لیے کہہ دیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/35M4s
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Mohammed

یروشلم سے اتوار تئیس ستمبر کو ملنے والی مختلف نیوز ایجنسیوں کی رپورٹوں کے مطابق اس گاؤں کا نام خان الاحمر ہے، جو مغربی کنارے کے مقبوضہ فلسطینی علاقے میں بنائی گئی یہودی آباد کاروں کی کئی بستیوں میں سے ایک کے باہر واقع ہے۔ اس گاؤں کے مکینوں کو اسرائیلی فوج نے الٹی میٹم دے دیا ہے کہ وہ یکم اکتوبر تک اپنے گھروں سے رخصت ہو جائیں، جس کے بعد یہ گاؤں ختم کر دیا جائے گا۔

خبر ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس نے لکھا ہے کہ یہ گاؤں دراصل لکڑی اور ٹین کی چادروں وغیرہ سے بنائی گئی ایک ایسی کچی بستی ہے، جو اسرائیلی حکام کی اجازت کے بغیر تعمیر کی گئی تھی۔ خان الاحمر کے رہائشیوں کو یہ پیشکش بھی کی گئی ہے کہ اگر وہ چاہیں تو انہیں اس گاؤں کی موجودہ جگہ سے چند میل کے فاصلے پر آباد کیا جا سکتا ہے۔

اسرائیلی فوج کے مطابق اس گاؤں کے مکینوں کی اکثریت کا تعلق مقامی بدوؤں کی آبادی سے ہے اور انہوں نے خان الاحمر میں اپنے جھونپڑی نما گھر غیر قانونی طور پر تعمیر کیے تھے۔ اس گاؤں کے 200 کے قریب مکینوں میں آج اتوار تئیس ستمبر کے روز ایسے پمفلٹ بھی تقسیم کر دیے گئے، جن پر لکھا تھا کہ وہ یکم اکتوبر سے پہلے پہلے وہاں سے رخصت ہو جائیں۔

Palästina Beduinendorf Khan al-Ahmar
خان الاحمر کی رہائشی ایک فلسطینی لڑکی اسکول جاتے ہوئےتصویر: picture-alliance/ZumaPress

اس گاؤں کے مکینوں نے اسرائیلی فوج کے ان ارادوں کے خلاف اسرائیلی سپریم کورٹ میں ایک اپیل بھی دائر کر رکھی تھی، جو اسی ماہ کی پانچ تاریخ کو مسترد کر دی گئی تھی۔ اسرائیلی سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ خان الاحمر میں گھروں کی تعمیر غیر قانونی طور پر کی گئی تھی، اس لیے اس گاؤں کا منہدم کر دیا جانا چاہیے۔

اس کے برعکس اس گاؤں کے رہائشی فلسطینیوں اور مقامی بدوؤں کا کہنا ہے کہ اسرائیلی حکام سے تعمیراتی مقاصد کے لیے کوئی قانونی پرمٹ حاصل کرنا تقریباﹰ ناممکن ہوتا ہے۔

فلسطینیوں کے مطابق اس گاؤں کو منہدم کرنے کی ایک مبینہ وجہ یہ بھی ہے کہ اسرائیلی فوج اسے ختم کر کے مزید رقبہ حاصل کرنا چاہتی ہے تاکہ اس یہودی بستی کے علاقے میں توسیع کی جا سکے، جس کے باہر یہ گاؤں واقع ہے۔

اسرائیل کے مقبوضہ مغربی کنارے میں یہودیوں کی آباد کاری اور مقامی فلسطینی اور بدو آبادیوں کی بے دخلی سے متعلق اس منصوبے پر بین الاقوامی برادری اور کئی یورپی ممالک کی طرف سے شدید تنقید کی جا رہی ہے۔

متعدد یورپی ریاستوں نے اسرائیل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مقبوضہ فلسطینی علاقے میں خان الاحمر نامی اس گاؤں کو منہدم کر دینے کے اپنے ارادوں سے باز رہے۔

نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق اس گاؤں کے رہائشی اسرائیلی فوج کی طرف سے نوٹس دیے جانے کے باوجود اپنے گھروں سے رخصتی پر آمادہ نہیں ہیں۔

دوسری طرف یہ بات واضح نہیں کہ اگر اس گاؤں کے مکینوں نے یکم اکتوبر تک اپنے گھر خالی نہ کیے تو اسرائیلی فوج کیا کرے گی۔ گاؤں کے مکینوں کو اسرائیلی فوج نے یہ پیشکش بھی کی ہے کہ اگر وہ چاہیں تو اسرائیلی فوج ان کے گھر گرانے کے عمل میں ان کی مدد بھی کر سکتی ہے۔

خان الاحمر جغرافیائی طور پر ایک اہم اسٹریٹیجک مقام پر یروشلم سے مشرق کی طرف واقع ہے۔ اس گاؤں کے قریب ہی یہودی آباد کاروں کی کئی بستیاں بھی ہیں اور یہ ایک ایسی شاہراہ کے قریب واقع ہے، جو بحیرہ مردار کو جاتی ہے۔

م م / ع ح / اے پی، اے ایف پی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید