وہ وقت دور نہیں جب سمندروں میں مچھلیوں سے زیادہ پلاسٹک ہو گا
گزشتہ نصف صدی میں ہم نے 8.3 بلین ٹن پلاسٹک تیار کیا ہے، جس کی اکثریت کسی نہ کسی صورت میں ہمارے ماحول کو تباہ کر رہی ہے۔ معاملات اسی طرح جاری رہے، تو سن 2050 تک سمندروں میں مچھلیوں سے زیادہ پلاسٹک پایا جائے گا۔
جب پلاسٹک کا کوڑا کرکٹ کوئی مسئلہ نہیں تھا
سن 1950 سے 1970ء تک کی دہائیوں میں پلاسٹک کم مقدار میں بنتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت پلاسٹک کا کوڑا کرکٹ نہ ہونے کے برابر تھا اور یہ دنیا کے لیے بڑا مسئلہ نہیں تھا، جتنا پلاسٹک کوڑے تک پہنچتا تھا، اسے ٹھکانے لگا دیا جاتا تھا۔
صنعتی ترقی اور پلاسٹک کی پیداوار تین گنا
سن 1990 کی دہائی تک پلاسٹک کی پیداوار تین گنا سے بھی زیادہ بڑھ چکی تھی۔ اسی طرح پلاسٹک کا کوڑا کرکٹ بڑھا اور آہستہ آہستہ یہ ایک مسئلہ بنتا گیا۔
نئی صدی، نئے طور طریقے
سن 2000 کے اوائل میں پلاسٹک کی پیداوار بے تحاشہ بڑھ چکی تھی۔ ایک دہائی میں پلاسٹک کی پیداوار اتنی بڑھی، جتنی گزشتہ چار دہائیوں میں ملا کر بھی نہیں بڑھی تھی۔
پلاسٹک کا کچرا، آج کی دنیا کا بڑا مسئلہ
آج دنیا بھر میں سالانہ بنیادوں پر تین سو ملین ٹن پلاسٹک کا کوڑا کرکٹ جمع ہوتا ہے۔ اگر دنیا کی مجموعی آبادی کا وزن کیا جائے، تو وہ پلاسٹک کے اس وزن سے کم ہو گا۔
پلاسٹک: ماحول کی تباہی کا ذمہ دار
سن 1950 سے لے کر اب تک قریب 8.3 بلین ٹن پلاسٹک تیار کیا گیا ہے۔ اس کے ساٹھ فیصد کو درست اور ماحول دوست طریقے سے ٹھکانے نہیں لگایا جا سکا، جس کی وجہ سے یہ پلاسٹک آج یا تو کوڑے کرکٹ کے پہاڑوں کی صورت میں موجود ہے یا ہمارے سمندروں، جنگلات اور ماحول کا حصہ بن کر انہیں تباہ کر رہا ہے۔
سب سے زیادہ نمایاں: سگریٹ کے فلٹر
ایک تازہ سروے کے مطابق پلاسٹک کے کوڑے میں سب سے نمایاں سگرٹ کے فلٹر ہیں۔ پانی و مشروبات کی بوتلیں، بوتلوں کے ڈھکنے، کھانے پینے کی اشیاء کی پیکنگ، شاپنگ بیگز اور اسٹرا دیگر اشیاء ہیں، جو پلاسٹک کے کوڑے کرکٹ کا نمایاں حصہ ہیں۔
آبی حیات اور سمندروں کے لیے خطرہ
ہر سال آٹھ ملین ٹن پلاسٹک کا کوڑا ہمارے سمندروں کا حصہ بنتا ہے۔ سمندروں میں یہ پلاسٹک دریاؤں سے پہنچتا ہے۔ دنیا کے دس دریا، نوے فیصد پلاسٹک کا کوڑا پھیلانے کے ذمہ دار ہیں۔ پاکستان کا دریائے سندھ بھی ان میں شامل ہے، جس سے سالانہ 164,332 ٹن پلاسٹک سمندر میں پھیلتا ہے۔
مچھلی کم، پلاسٹک زیادہ
اگر پلاسٹک کی پیداوار اور اس سے بننے والے کچرے پر کنٹرول نہیں کیا گیا اور معاملات اسی طرح جاری رہے، تو اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق سن 2050 تک ہمارے سمندروں میں مچھلیوں سے زیادہ پلاسٹک پایا جائے گا۔