1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نیا سنسر بورڈ، ’پی کے‘ جیسی فلموں کے لیے خطرے کی گھنٹی

عدنان اسحاق20 جنوری 2015

بھارتی فلمی صنعت بالی وڈ کا سنسر شپ بورڈ تبدیل ہو گیا ہے۔ اب اس پینل میں زیادہ تر ایسے اداکاروں، ادیبوں اور ہدایتکاروں کو شامل کیا گیا ہے، جن کا حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی سے کوئی نہ کوئی تعلق بنتا ہے۔

https://p.dw.com/p/1ENDl
تصویر: Punit Paranjpe/AFP/Getty Images

بالی وڈ کے سنسر شپ بورڈ کے نئے چیئرمین ہدایتکار پھالج نیہالانی ہوں گے، جن کے ساتھ مزید نو ارکان یہ ذمہ داریاں نبھائیں گے۔ نیہالانی 1990ء میں ریلیز ہونے والی فلم ’آنکھیں‘ کے ہدایتکار تھے۔ اس کے بعد انہوں نے 2014ء میں ہونے والے عام انتخابات میں وزیراعظم مودی کے مہم کے لیے ایک تشہیری فلم بھی بنائی تھی۔

اس کے علاوہ وزیراعظم مودی کے لیے بنائی جانے والی فلم میں کام کرنے والے اداکاروں، سیاستدانوں اور اسکرپٹ لکھنے والوں کو بھی نئے سنسر بورڈ میں شامل کیا گیا ہے۔ ان تقرریوں کے حوالے سے سماجی ویب سائٹس پر مودی حکومت پر سوالات کی بوچھاڑ شروع ہو گئی ہے۔

ہدایتکار اشوک پانڈے بھی نئے سنسر بورڈ کے رکن ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ سیاسی وابستگی کام پر اثر انداز نہیں ہو گی:’’میں نریندر مودی اور ان کے خیالات کا بہت بڑا حمایتی ہوں۔ لیکن جب فلموں کو پاس کرنے کی بات آئے گی تو بورڈ کے آئین کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلے کیے جائیں گے۔‘‘

Dilwale Dulhania le Jayenge Film Bollywood Dezember 2014 Mumbai
تصویر: AFP/Getty Images/I. Mukherjee

گزشتہ ہفتے سابقہ سنسر شپ بورڈ نے فلم ’ایم ایس جی‘ یعنی ’دی میسنجر آف گاڈ‘ کو ریلیز کرنے کی اجازت نہیں دی تھی۔ بورڈ کا موقف تھا کہ یہ فلم ایک مذہبی فرقے کی تشہیر کے لیے بنائی گئی ہے اور یہ معاشرے میں توہم پرستی اور ضعیف الاعتقادی کے فروغ کا سبب بننے گی۔ تاہم بعد ازاں ایک اپیل سننے والے بورڈ نے گرمیت رام رحیم سنگھ پر بنائی جانے والی اِس فلم کے بارے میں فیصلہ تبدیل کرتے ہوئے فلم کی نمائش کی اجازت دے دی تھی۔ گرمیت رام رحیم سنگھ کے ماننے والوں کی تعداد کئی ملین ہے اور اُنہوں نے مئی 2014ء کے انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک صوبائی امیدوار کی حمایت کی تھی۔

ناقدین الزام عائد کر رہے ہیں کہ قوم پرست ہندو جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے اپنے سیاسی ایجنڈے کو فروغ دینے کے لیے نئے سنسر بورڈ میں اپنے من پسند افراد کو منتخب کیا ہے۔ گزشتہ ہفتے سنسر شپ بورڈ کے ارکان نے یہ کہتے ہوئے استعفٰی دے دیا تھا کہ اُن کے کام میں حکومت کا عمل دخل بڑھتا جا رہا ہے۔

سنسر بورڈ کے مستعفی ہونے کے اس واقعے کے بعد 13جنوری کو اپوزیشن کی کانگریس پارٹی نے حکومت پر الزام عائد کیا کہ حکومت وزارت وسائل کے علاوہ اطلاعات و نشریات کی وزارت کو بھی مودی کے ہندو نظریے کے فروغ کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ کانگریس پارٹی کے ترجمان سنجے جاہ کہتے ہیں:’’گُڈ لَک بالی وڈ، اب’پی کے‘ جیسی مزید فلمیں نہیں بن سکیں گی۔‘‘

سنسر شپ بورڈ کی سابق چیئرمین لیلا سیمسن نے کہا:’’فلم ’پی کے‘ کی ریلیز کے وقت ہمیں شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا لیکن ہم اپنے فیصلے پر قائم رہے۔ یہ مضحکہ خیز ہے کہ اب ہم ایک ملک کے طور پر اپنے اوپر ہنس بھی نہیں سکتے۔‘‘

’پی کے‘ بالی وڈ کی اب تک کی تاریخ کی کاروباری لحاظ سے کامیاب ترین فلم ہے۔ قدامت پسند ہندوؤں نے اس فلم کی ریلیز پر شدید احتجاج کرتے ہوئے اس پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ ان کا موقف تھا کہ اس فلم میں مذہب کی توہین کی گئی ہے۔

بھارت کی 1.2 ارب کی آبادی میں160 ملین مسلمان ہیں جبکہ مسیحیوں کی بھی ایک بڑی تعداد آباد ہے۔