1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نیا خلائی تحقیقی نقشہ اور نئی کہکشاؤں کے خفیہ راز

13 جون 2022

یورپین اسپیس ایجنسی نے تقریبا بیس لاکھ ستاروں کے جائزے پر مبنی نیا ڈیٹا جاری کیا ہے۔ حیران کن انکشاف یہ ہے کہ ’ستاروی زلزلے‘ کی لہریں بڑے بڑے ’آتشیں گولوں‘ کو سونامی کی طرح بہائے لے جاتی ہیں۔

https://p.dw.com/p/4Ccni
Milchstraße | Mysteriöses Objekt von Astronomen noch nie gesehen
تصویر: Natasha Hurley-Walker/ICRAR/Curtin/GLEAM Team

یورپین اسپیس ایجنسی (ای ایس اے) کی طرف سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے، ’’گائیا خلائی مشن کا تیسرا ڈیٹا سیٹ جاری کیا جا رہا ہے، جس کا دنیا بھر کے ماہرین فلکیات بے صبری سے انتظار کر رہے  تھے۔ اس ڈیٹا نے کہکشاؤں کے بارے میں ہماری سمجھ بوجھ میں انقلاب برپا کر دیا ہے۔‘‘

 گائیا (فضا پیما) نے نہ صرف زمینی کہکشاں کے رازوں سے پردے اٹھائے ہیں بلکہ اس نے کائنات میں موجود دیگر 2.9 ملین کہشاؤں اور تقریبا بیس لاکھ کوآزار( کہکشاؤں کے مرکز میں بلیک ہولز کے قریب تیزی سے گھومتے اور انتہائی روشن ستاروں کے جھرمٹ)کا پتا چلایا ہے۔

گائیا خلائی جہاز کو ایک حکمت عملی کے تحت زمین سے 1.5 ملین کلومیٹر کے فاصلے پر ایک مدار میں رکھا گیا ہے۔ گائیا خلائی جہاز کو 2013ء میں لانچ کیا گیا تھا اور یہ تب سے کائناتی وسعتوں کا ڈیٹا جمع کرنے میں مصروف ہے۔

پیرس آبزرویٹری کے ماہر فلکیات میشا ہیووڈ کا کہنا تھا، ''گائیا آسمان کو اسکین کرتا ہے اور جو کچھ دیکھتا ہے، اسے محفوظ کر لیتا ہے۔‘‘ لیکن اس کے ذریعے اب بھی زمینی ملکی وے کے تقریباً اُن ایک فیصد ستاروں کا پتا لگایا جا سکتا ہے، جو کہ ایک لاکھ نوری سال کی دوری پر واقع ہیں۔

Illustration Schwarzes Loch Sagittarius A* in der Milchstraße
گائیا خلائی جہاز کو 2013ء میں لانچ کیا گیا تھا اور یہ تب سے کائناتی وسعتوں کا ڈیٹا جمع کرنے میں مصروف ہےتصویر: ESO/José Francisco Salgado/EHT Collaboration

یہ تحقیقی مشن دو دور بینوں کے ساتھ ساتھ ایک بلین پکسل والے کیمرے سے لیس ہے۔ اس کی قوت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ اس کے ذریعے ایک ہزار کلومیٹر کے فاصلے تک انسانی بالوں کے قطر تک کا انداز لگایا جا سکتا ہے اور انتہائی عمدہ کوالٹی کی تصاویر کھینچی جا سکتی ہیں۔

اس خلائی جہاز میں کئی دوسرے آلات بھی ہیں، جن سے نہ صرف ستاروں کے نقشے بلکہ ان کی حرکات، کیمیائی ساخت اور عمروں کی پیمائش بھی کی جاتی ہے۔ اس سے ستاروں کے درمیان پائے جانے والے فرق کا بھی پتا چلتا ہے۔

’’ستاروی زلزلے‘‘ حیران کن دریافت

گائیا مشن کے رکن الیاندرا ریکیو بلانکو بتاتے ہیں، ''ہماری کہکشاں ستاروں کا ایک خوبصورت پگھلنے والا برتن ہے۔ یہ تنوع انتہائی اہم ہے کیونکہ یہ ہمیں ہماری کہکشاں کی تشکیل کی کہانی سناتا ہے۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا، ''یہ بہت واضح ہے کہ ہمارا سورج اور ہم سب ایک لمحہ بہ لمحہ بدلتے نظام سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ نظام ستاروں اور مختلف ماخذ کی گیسوں کے جمع ہونے کی بدولت تشکیل پایا ہے۔‘‘

نئے ڈیٹا سے ماہرین ''ستاروی زلزلوں‘‘ کا پتا چلانے میں کامیاب رہے، جن کی بہت زیادہ وائبریشن یا ارتعاش سے دور دراز کے ستاروں کی بھی ہئیت بدل جاتی ہے۔ ای ایس اے کے سائنسدانوں کے لیے یہ سب سے حیران کن نئی دریافت ہے۔ گائیا کو ''ستاروی زلزلے‘‘ ماپنے کے لیے تو نہیں بنایا گیا تھا لیکن پھر بھی اس نے ہزاروں ستاروں پر اس عجیب و غریب رجحان کا پتا چلایا ہے۔  

گائیا کے رکن کونی ایرٹس کا کہنا ہے کہ گائیا نے ''بڑے ستاروں کی کیاسٹروسیزمولوجی‘‘ کے لیے نئے دروازے کھول دیے ہیں۔ نئے اعداد و شمار کی بنیاد پر تقریباً 50 سائنسی مقالے شائع کیے گئے ہیں جبکہ آنے والے برسوں میں اور بھی بہت زیادہ متوقع ہیں۔

ا ا / ع ت ( اے ایف پی)