1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نوجوان نسل وطن عزیز کیوں چھوڑ رہی ہے؟

27 فروری 2023

ملک کی بگڑتی ہوئی معاشی صورت حال اور روز بہ روز سکڑتے ہوئے بسر اوقات کے مواقع، ایسے میں ہماری نسل نو میں حصول رزق کے لیے بیرون ملک منتقلی کا رجحان تشویش ناک حد تک بڑھتا نظر آ رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/4O19h
ڈی ڈبلیو بلاگر سویرا خان
تصویر: Privat

سنتے آئے تھے کہ جس ملک میں نوجوان اکثریت میں ہوں اس کی ترقی کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں لیکن پاکستان میں روئداد اس کے برعکس ہے۔ کچھ معاشرتی دباؤ اور کچھ تن آسانی کی عادت، فنی تربیت اور ہنر سکھانے کا نہ تو کوئی نظام موجود ہے اور نہ ہی شوق، روایتی تعلیم کی مارکیٹ میں کوئی مانگ نہیں اور اپنے معاشی خوابوں کے تعاقب میں نوخاستہ کی اکثریت کم عمری سے ہی دوسرے ممالک جانے کے سپنے دیکھنا شروع کر دیتی ہے۔

پچھلے دس سال میں نوجوانوں کی بڑی تعداد کے حصول معاش کی خاطر بیرون ملک جانے کے رجحان میں تیزی نظر آتی ہے۔ پاکستان کے بالخصوص بڑے شہروں میں لڑکے اور لڑکیاں انٹر یا اے لیول کے بعد غیر ملکی یونیورسٹیوں میں داخلے کی تگ و دو میں لگ جاتے ہیں۔ لیکن اس کی وجوہ کیا ہیں کہ ملک کا یہ اثاثہ کسی نا کسی حوالے سے بیرون ملک سکونت اختیار کرنے میں ہی اب اپنی بھلائی سمجھتا ہے؟ اس انتہائی تشویش ناک سرگزشت کا تفصیلی جائزہ لیں تو جو اسباب دکھائی دیتے ہیں وہ کچھ ایسے غلط بھی نہیں۔

اس میں قطعاً کوئی مغالطہ نہیں کہ پاکستان کے معاشی اور سیاسی حالات نے بھی نوجوان طبقے کو بدظن کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ آبادی جس تیز رفتاری سے بڑھ رہی ہے اس تعداد سے بیروز گاری میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ ہر سال لاکھوں کی تعداد میں نوجوان ڈگریاں حاصل کرتے ہیں لیکن حکومت کی جانب سے روزگار کے نئے مواقع آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ ناقابل برداشت منہگائی نے اس رجحان کو مزید تیز کر دیا ہے۔ نتیجتاً پاکستان کی نوجوان نسل اس ملک کو ایک ناکام ریاست تصور کرنے لگی ہے۔

پاکستانی نوجوانوں کی اکثریت کی رائے ہے کہ جس ملک میں بیروز گاری عام ہو، میرٹ، انصاف اور قانون کی عمل داری صرف کتابوں اور اخباری بیانوں تک محدود ہو، سفارش اور رشوت کے بغیر کوئی کام نہ ہوتا ہو، جہاں اشرافیہ اور عوام کے معیار زندگی میں میلوں کا فاصلہ ہو، عدالتوں سے انصاف کا حصول عملاً ناپید ہو، تو ایسے ملک میں محفوظ مستقبل کی کیا ضمانت ہے؟

منقسم معاشرے میں محروم طبقات سے تعلق رکھنے والی نئی نسل شخصی آزادی چاہتی ہے۔ وہ اپنے فیصلے خود کرنا چاہتے ہیں۔ـ لیکن گھٹن زدہ ماحول میں ان بنیادی حقوق کی گنجائش بھی دن بہ دن معدوم ہوتی جا رہی ہے۔ دوسری طرف خواتین کے لیے غیر محفوظ ماحول اور امتیازی سلوک کے باعث نوعمر خواتین بھی یہاں سے نکلنا چاہتی ہیں۔

اندرون پنجاب، سندھ، بلوچستان اور خیبر پختون خواہ کی نوجوان نسل بیروز گاری اور منہگائی کا عذاب جھیلنے کی بجائے کسی نہ کسی ذریعے سے بیرون ملک قسمت آزمائی کرنا چاہتے ہیں۔ غیر ہنر مند اور کم تعلیم یافتہ نئی نسل جہاں مشرق وسطی اور عرب ممالک میں قابل رحم حالت میں ادنٰی مزدوریاں کر کے زندگی کی گاڑی کو کسی نہ کسی طرح سے کھینچ رہی ہے، وہیں انسانی سمگلر گروہوں کے ذریعے غیر قانونی راستوں سے گزر کر انتہائی نامساعد حالات میں یورپ پہنچنے کی خواہش میں کئی اپنی جانوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔

کینیڈا اور آسٹریلیا اور مشرق بعید کے ممالک میں ابھی بھی مہارت یافتہ افراد کے لیے پرکشش مواقع موجود ہیں لیکن ایسی مہارت کتنوں کے پاس ہے؟

 ان تمام وجوہات کی بنا پر نسل سمجھتی ہے کہ پاکستان میں اب ان کے لیے کچھ نہیں رکھا، لہذا بیرون ملک شہریت حاصل کرنا ان کی زندگی کا مقصد بن گیا ہے چاہے وہ تعلیمی حوالے سے ہو، حصول معاش ہو، امن اور عدل و انصاف کے حصول کی خواہش ہو یا شخصی آزادی۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہماری ریاست کے مقتدر اور فیصلہ ساز ادارے کب خواب غفلت سے جاگیں گے اور ہماری نئی پود کے لیے اپنے ملک میں ان ساری سہولتیں اور روزگار کو یقینی بنائیں گے جو وہ دوسرے ممالک میں بس کر حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔