1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نوبل انعام کی ایک جہت سیاہ بھی

عاطف توقیر4 اکتوبر 2015

نوبل انعام کا نام آتے ہیں، ہم انسانیت کی فلاح کے لیے کی جانے والے تحقیق کا سوچنے لگتے ہیں، مگر کچھ مواقع پر یہ انعام انسانیت کو نقصان پہنچانے والی ایجادات کے حصے میں بھی آیا۔

https://p.dw.com/p/1GiXa
Chemiewaffenentsorgung Deutschland
تصویر: Getty Images/Afp/Philipp Guelland

ماضی میں یہ انعام کیمیائی ہتھیاروں، ڈی ڈی ٹی اور لوبوٹومیز جیسی ایجادات کے حصے میں آیا۔

نوبل انعام کے حوالے سے کئی طرح کے تنازعات سامنے آتے رہے ہیں۔ لکھاری جنہیں یاد نہیں کیا گیا، سائنس دان جو ’میں نے پہلے ایجاد‘ کیا کے دعوے کرتے رہے اور امن انعام یافتہ افراد کے حوالے سے مختلف اور متضاد عوامی رائے جیسے معاملات دیکھے جاتے رہے ہیں۔

مگر سائنس کے شعبے میں دیے گئے کچھ انعامات بعد میں نوبل کمیٹی کے لیے شرمندگی کا باعث بھی بنے۔

Flash-Galerie Deutsche Chemie-Nobelpreisträger Fritz Haber 1918
جرمن کیمیادان ہابر کے انعام پر سب سے زیادہ بحث رہی ہےتصویر: picture alliance / dpa

سن 2013ء میں کیمیائی ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ سے متعلق عالمی تنظیم OPCW کو امن انعام دیا گیا۔ تاہم یہ بالکل ایسا تھا، جسے سن 1928 نوبل امن کی بجائے جرمن کیمیادان فرٹس ہابر کو نوبل جنگ انعام دیے جانے کی ہزیمت ختم کی جا رہی ہو۔

ہابر کو کیمیا کے شعبے میں نوبل انعام امونیا کے سینتھیسس کے کامیاب تجربے پر دیا گیا تھا، جو اس وقت کھادوں کی تیاری کے لیے نہایت اہم تھا، تاکہ خوراک کی پیداوار میں اضافہ ممکن ہو۔

مگر ہابر کو کیمیائی ہتھیاروں کا بانی قرار دیا جاتا ہے۔ اس جرمن سائنس دان نے پہلی عالمی جنگ میں متعدد زہریلی گیسیں تیار کیں اور ایک جنگ میں تو اس نے ایک کیمیائی حملے میں سرپرستی تک کی۔

سویڈش کیمیادان انگر انگمانسن کے مطابق، ’جنگ میں جرمنی کی شکست کے بعد اسے یہ امید ہر گز نہیں تھی کہ اسے انعام دیا جائے گا، بلکہ وہ اپنے کورٹ مارشل کے خوف سے دوچار تھا۔‘ انگماسن نے ہابر کو نوبل انعام دیے جانے پر ایک کتاب تحریر کی ہے۔

ان کا کہنا ہے، ’کچھ افراد چاہتے تھے کہ سویڈن بھی اس جنگ میں جرمنی کے ساتھ شامل ہو جائے۔ یہ انعام کچھ افراد کی نظر میں اسی تناظر کا ایک حصہ تھا۔‘

یہ انعام نوبل انعام کی تاریخ کے قابل اعتراض سمجھے جانے والے انعامات میں سے ایک ہے۔ فرانسیسی سائنس دان وکٹر گرنگنارڈ جسے نوبل انعام دیا گیا، وہ بھی زہریلی گیسس تیار کرنے میں مصروف رہا، تاہم ایسا اس نے نوبل انعام ملنے کے بعد کیا تھا۔ اسے نوبل انعام سن 1912 میں دیا گیا تھا۔

نومبر سن 1945ء میں جوہری انشقاق کے عمل کی دریافت پر جرمن سائنس دان اوٹو ہان کو یہ انعام دیا گیا۔ یہ نوبل انعام ہیروشیما اور ناگاساکی پر امریکی جوہری حملوں کے کچھ ہی مہینے بعد دیا گیا، جب کہ اوٹو ہان نے جوہری انشقاق کے عمل کی دریافت سن 1938 میں کی تھی۔ واضح رہے کہ ایٹم بم میں یہی عمل استعمال ہوتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہان نے کبھی اس عمل کے عسکری استعمال کی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لیا۔

اس کے علاوہ متعدد دیگر نوبل انعامات پر بھی مختلف حلقے بحث کرتے ہیں جب کہ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ اتنے محترم انعام کے لیے کسی نام سے قبل انتہائی محتاط ہونے کی ضرورت ہے۔