1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نوازشریف کی واپسی کی خبریں: کیا ن لیگ کو سیاسی فائدہ ہوگا؟

عبدالستار، اسلام آباد
5 دسمبر 2022

سابق وزیراعظم نواز شریف کے ملک واپس آنے کی خبر ایک بار پھر گرم ہے۔ کئی حلقے اس بات پر بحث کر رہے ہیں کہ کیا ان کی واپسی سےمسلم لیگ ن کو دوبارہ سیاسی مقبولیت ملے گی؟

https://p.dw.com/p/4KUrZ
USA |  Pakistan's Prime Minister Nawaz Sharif
تصویر: Getty Images/S. Platt

نواز شریف کی ملک واپسی کی خبر کے حوالے سے کئی پہلوؤں پربات چیت ہو رہی ہے۔ اس خبر کے حوالے سے قانونی نکات پر بھی بحث کی جاری ہے۔

نواز شریفعدالت کی اجازت سے کچھ  برسوں پہلے لندن گئے تھے اور انہوں نے اپنے حلف نامے میں یہ لکھا تھا کہ جیسے ہی ان کا علاج مکمل ہو جائے گا، وہ واپس آجائیں گے۔

ناقدین کا خیال ہے کہ نواز شریف کے باہر رہنے کی وجہ سے مسلم لیگ نون کو سیاسی طور پر نقصان ہوا ہے اور اس کی عوامی مقبولیت میں کمی آئی ہے۔

’میاں صاحب اس ماہ آسکتے ہیں‘

 مسلم لیگ کے رہنما جاوید لطیف سمیت کئی رہنما اس بات کا برملا اظہار کرچکے ہیں کہ اگرمیاں نواز شریفاگلے انتخابات سے پہلے پاکستان واپس نہیں آئے، تو پارٹی کو اگلے عام انتخابات میں سیاسی دھچکا لگ سکتا ہے۔

مسلم لیگ نون کا کہنا ہے کہ نواز شریف کی واپسی کا راستہ بالکل صاف ہے۔ پارٹی کے ایک رہنما اور سابق گورنر خیبر پختونخواہ اقبال ظفر جھگڑا نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' میاں صاحب کو پاسپورٹ جاری کر دیا گیا ہے اور دوسری قانونی کارروائیاں بھی کی جارہی ہیں۔ ممکن ہے کہ اسی ماہ وہ پاکستان واپس آجائیں اور سیاسی سرگرمیوں میں بھرپور حصہ لیں۔‘‘

اقبال ظفر جھگڑا کے مطابق ان کی واپسی پر قانونی تقاضے پورے کیے جائیں گے اور عدالت سے رجوع کیا جائے گا۔

پارٹی کی مقبولیت بحال ہوگی

 اقبال ظفر جھگڑا کے مطابق یہ بات صحیح ہے کہ سیاسی رہنماؤں کی عدم موجودگی میں سیاسی جماعتوں کی مقبولیت بہت متاثر ہوتی ہے۔ '' اور یقیناً ن لیگ کی بھی مقبولیت متاثر ہوئی ہے لیکن مجھے امید ہے کہنواز شریف جیسے ہی واپس آئیں گے، عوام کی اکثریت ان کے ساتھ ہوگی اور وہ پارٹی کو ایک بار پھر متحرک کرینگے۔ اگلے انتخابات میں پارٹی بھاری اکثریت سے جیتے گی۔‘‘

ن لیگ کی سیاسی حیثیت بہتر ہوگی

سیاسی مبصرین اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ نواز شریف کے آنے سے مسلم لیگ نون کی سیاسی حیثیت پر فرق پڑے گا۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار خالد بھٹی کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ کی مقبولیت وسطی پنجاب میں قائم ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' اور نواز شریف کے آنے سے وہ نہ صرف پنجاب کے دوسرے علاقوں میں میں دوبارہ سے مضبوط ہو جائے گی بلکہ خیبرپختونخواہ اور پاکستان کے باقی علاقوں میں بھی اسے شاید کچھ کامیابی مل جائے۔‘‘

خالد بھٹی کے مطابق مسلم لیگ نون کے کچھ اراکین قومی اسمبلی نے پارٹی سے بے وفائی کی تھی لیکن صوبائی اسمبلی کے اراکین میاں صاحب کے ساتھ ہی رہے ہیں۔ '' نواز شریف مجمع اکٹھا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور اصل میں ووٹ بینک نواز شریف کا ہی ہے۔ تو قوی امکان یہ ہے کہ اگر انہوں نے سیاسی سرگرمیوں میں بھر پور حصہ لیا، تو ن لیگ  پنجاب کی سب سے بڑی جماعت بن کر ابھر ے۔‘‘

ضمنی الیکشن: پی ٹی آئی کامیاب، مگر سیاسی نقصان کس کس کا ہوا

انتخابات کا وقت ضروری ہے

تاہم خالد بھٹی کے مطابق یہ بھی دیکھنا پڑے گا کہ انتخابات فوری طور پر ہوتے ہیں یا اکتوبر میں۔ '' اگر انتخابات فوری طور پر ہوتے ہیں، تو اس بات کا امکان ہے کہ شاید پی ٹی آئی مسلم لیگ نون سے قومی اسمبلی کی کوئی دس نشستیں زیادہ لے لے، لیکن اگر انتخابات اگلے برس اکتوبر میں ہوتے ہیں اور اس وقت تک اگر حکومت مہنگائی کو کم کرتی ہے اور دوسرے مسائل کو قابو کر لیتی ہے۔  تو مسلم لیگ نون پاکستان تحریک انصاف پر سبقت حاصل کر سکتی ہے۔‘‘

بیرون ملک دورے: رشتے داروں اور احباب کو نوازنے کا رجحان

کوئی فرق نہیں پڑے گا

تاہم پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ نواز شریف کے آنے سے مسلم لیگ نون کی مقبولیت واپس نہیں آنے والی۔ پاکستان تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی محمد اقبال خان آفریدی نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' کیا نواز شریف کے پاس کوئی جادو کا چراغ ہے کہ مہنگائی کم ہوجائے گی اور معیشت دیوالیہ ہونے سے بچ جائے گی۔ وہ صرف اپنے مقدمات ختم کرائیں گے۔ لہذا ان کے آنے سے عوامی مسائل حل نہیں ہوں گی اور ان کی پارٹی کو مقبولیت نہیں ملے گی۔‘‘

پی ٹی آئی اور شیخ رشید ماضی میں یہ کہتے رہے ہیں کہنواز شریف واپس نہیں آئیں گے کیونکہ طاقتورحلقوں کی طرف سے انہیں آنے نہیں دیا جائے گا۔ تاہم اقبال خان آفریدی کا کہنا ہے کہ اب نوازشریف کو اشارہ مل گیا ہے۔ ''طاقتور حلقوں کی طرف سے اشارہ مل گیا ہے اسی لیے وہ واپس آرہے ہیں۔‘‘

 قانونی معاملات

پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ کیونکہ مسلم لیگ نون کے رہنما کچھ ہفتوں کی اجازت لے کر لندن گئے تھے، تو واپسی پر انہیں گرفتار کیا جا سکتا ہے۔ تاہم کچھ قانونی ماہرین اس رائے سے اتفاق نہیں کرتے۔ راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے معروف قانون دان کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' قانونی طور پر نواز شریف کو ایئرپورٹ سے گرفتار نہیں کیا جا سکتا۔ اگر وہ اسلام آباد ائیرپورٹ پر اترتے ہیں، تو وہ راہداری ضمانت حاصل کر سکتے ہیں اور بعد میں لاہور ہائی کورٹ میں پیش ہوکر اپنے لیے ضمانت بھی حاصل کر سکتے ہیں۔‘‘نواز شریف کو واپس لانے کے لیے حکومتی کوششیں شروع

 

کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کے مطابق ایئرپورٹ سے گرفتاری ان ملزمان کی ہوتی ہے جنہوں نے انتہائی سنگین جرائم کیے ہیں۔ ''اگر کوئی شخص قتل کے مقدمے میں مفرور ہو، تو اسے ایئرپورٹ سے بھی گرفتار کیا جا سکتا ہے لیکن نواز شریف عدالت کی اجازت سے سے باہر گئے تھے، ان کے معاملے میں گرفتاری قانونی تقاضہ نہیں ہے۔ اس کی نظیر بھی موجود ہے کہ جب جنرل اشفاق پرویز کیانی کے بھائی کامران کیانی باہر سے آئے، تو انہیں راہداری ضمانت دے دی گئی اور بعد میں وہ خود عدالت میں پیش ہوئے اور انہوں نے اپنے قانونی معاملات نمٹائے۔‘‘