1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نس بندی سانحہ: ’سنگین جرم اور افسوس ناک معاملہ‘

جاوید اختر، نئی دہلی12 نومبر 2014

اقوام متحدہ نے بھارتی ریاست چھتیس گڑھ میں خاندانی منصوبہ بندی کے تحت نس بندی کے سبب ایک درجن سے زائد خواتین کی ہلاکت کو ایک بڑا انسانی سانحہ قرار دیا ہے، دوسری طرف حکومت نے معاملے کی انکوائری شروع کردی ہے۔

https://p.dw.com/p/1DlsO
تصویر: picture-alliance/ZUMAPRESS.com

اقوام متحدہ آبادی فنڈ (یو این ایف پی اے) کی ڈپٹی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر کیٹ گلمور کاکہنا ہے کہ فیملی پلاننگ کے لئے پسند، میعار اور احتساب پیشگی شرائط ہیں لیکن چھتیس گڑھ میں جو کچھ ہوا وہ ایک بڑا انسانی المیہ ہے، یہ ایک سنگین جرم اور افسوس ناک معاملہ ہے۔ محترمہ گلمور صنفی مساوات پر یہاں ایک بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کے لئے آئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حالانکہ بھارت سرکار نے نس بندی پروگرام پر عمل درآمد کے لئے واضح ہدایات دے رکھی ہیں لیکن اس کے باوجود اس طرح کے واقعات کا مطلب ہے کہ کہیں نہ کہیں خامی موجود ہے۔ ان کاکہنا تھا کہ اس معاملے کی آزادانہ انکوائری کرائی جانی چاہئے۔

اس دوران مرکزی حکومت نے معاملے کی انکوائری کے احکامات دے دیے ہیں۔ مرکزی وزیر صحت سری پد نائک نے نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا، ’’ہم نے ریاستی حکومت سے رپورٹ طلب کی ہے اور رپورٹ ملتے ہی قصور واروں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔‘‘ ریاستی حکومت نے گوکہ متاثرین کے لئے معاوضہ کی رقم کا بھی اعلان کیا ہے تاہم متاثرین حکومت کے رویے سے سخت ناراض ہیں۔ ایک متاثرہ شخص کا کہنا تھا، ’’خاندانی منصوبہ بندی حکومت کامنصوبہ ہے نہ کہ ہمارا۔ اس کے باوجود ہم حکومت سے تعاون کرتے ہیں لیکن حکومت ہمیں مارنے پر آمادہ ہے۔ ڈاکٹر سے لے کر تمام عملہ اور وزیر صحت تک سبھی اس کے ذمہ دار ہیں۔‘‘

خیال رہے کہ چھتیس گڑھ کا معاملہ نس بندی کے آپریشن کے دوران طبیّ احتیاط کو نظر انداز کرنے کاپہلا معاملہ نہیں ہے۔ 2012ء میں بہار میں ایک کھیت میں نس بندی کا آپریشن کیمپ لگا کر صرف دو گھنٹے کے دوران 53 خواتین کا آپریشن کردیا گیا تھا۔ دراصل حکام اور انتظامیہ اپنا سروس ریکارڈ بہتر بنانے کے چکر میں خواتین کو موت کے منہ میں ڈال دیتے ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2010ء سے 2012ء کے دوران نس بند ی کے آپریشن کی وجہ سے ہر سال153 تا 184خواتین موت کا شکار ہوئیں۔ اسی طرح 2003 سے 2013 کے درمیان نس بندی آپریشن کی وجہ سے مرنے والی خواتین کی تعداد 1434 تھی۔

واضح رہے کہ 1.20ارب نفوس پر مشتمل بھارت نے آبادی پر قابو پانے کے لئے 1970ء کی دہائی میں خاندانی منصوبہ بندی پروگرام شروع کیا تھا۔ اس پر عمل درآمد کے پہلے برس ہی ساٹھ لاکھ مردوں کی نس بندی کردی گئی لیکن عوامی غم وغصہ کے بعد اس پروگرام کو ترک کردیا گیا۔ بعدازاں حکومت نے نس بندی کے لئے ترغیباتی اسکیمیں شروع کیں۔ راجستھان جیسی کئی ریاستوں نے نس بندی کرانے والوں کو موٹر سائیکل، ٹیلی ویژن سیٹ اور گھریلوسامان کی بھی پیش کش کی۔ اس ضمن میں دلچسپ پہلو یہ ہے کہ مردوں کو نس بندی کرانے پر عورتوں کے مقابلے زیادہ پیسہ دیے جاتے ہیں اس کے باوجود مردوں میں نس بندی کی شرح کافی کم ہے۔ دارالحکومت دہلی میں سن دو ہزار دس اور گیارہ میں تقریباﹰ ایک لاکھ اکہتر ہزار خواتین نے نس بندی کرائی جب کہ اس کے مقابلے میں مردوں کی تعداد صرف ستائیس سو نو تھی۔ انہی دو برسوں میں بھارت میں تقریباََ پچاس لاکھ نس بندیاں کرائی گئیں۔ ان میں خواتین کی تعداد 95.6 فیصد تھی۔ بہار میں یہ تعداد98.1 فیصد، یوپی میں97.8فیصد ، تامل ناڈو میں99.3 فیصد اور اروناچل پردیش میں99.8 فیصد تھی۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں جتنی نس بندیاں ہوتی ہیں اس کا37 فیصد بھارت میں ہوتا ہے۔

تجزیہ کاروں کاخیال ہے کہ چھتیس گڑھ کے حالیہ واقعہ سے ایک طرف حکومت کی صلاحیت اور کارکردگی پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے تو دوسری طرف خاندانی منصوبہ بندی اسکیم کے لئے لوگوں کی دلچسپی بھی متاثر ہوسکتی ہے۔

نس بندی کے سبب ایک درجن سے زائد خواتین کی ہلاکت کو ایک بڑا انسانی سانحہ قرار دیا جا رہا ہے
نس بندی کے سبب ایک درجن سے زائد خواتین کی ہلاکت کو ایک بڑا انسانی سانحہ قرار دیا جا رہا ہےتصویر: AFP/Getty Images