1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نایاب نسل کی سارس کی بلوچستان میں پرسرار گمشدگی کی کہانی

23 مئی 2021

سارس کی ایک نایاب نسل ’ویڈلا‘ سال میں دو مرتبہ ہجرت کرتی ہے۔ اس برس ہجرت کے دوران جی پی ایس کے ذریعے سارس کو ٹریک کیا جا رہا تھا کہ بلوچستان میں میانی ہور کے علاقے کے بعد سگنلز آنا بند ہو گئے۔ سارس کے ساتھ کیا ہوا؟

https://p.dw.com/p/3tfkc
سارس کی ایک نایاب نسل ’ویڈلا‘
سارس کی ایک نایاب نسل ’ویڈلا‘تصویر: WII

ویڈلا سارس کی ایک نایاب نسل ہے، جس کی مادہ اپنی خوبصورتی کے باعث دنیا بھر میں شہرت رکھتی ہے۔ یہ پرندے گزشتہ دو برس سے قازقستان سے اکتوبر میں ہجرت کر کے بھارت میں احمد آباد (گجرات) کی آبی پناہ گاہ میں چھ ماہ تک قیام کرتے ہیں۔ اور اپریل کے اوائل میں پاکستان میں سندھ اور بلوچستان کے کچھ علاقوں سے گزرتے ہوئے افغانستان کے راستے اپنی بریڈنگ سائٹ قازقستان ہجرت کر جاتے ہیں۔

سارس کی ایک نایاب نسل ’ویڈلا‘
سارس کی ایک نایاب نسل ’ویڈلا‘ سال میں دو مرتبہ ہجرت کرتی ہے۔تصویر: WII

دنیا بھر میں آبی پرندوں کی کچھ اقسام تیزی سے نایاب ہو رہی ہیں، اور اس کی وجوہات معلوم کرنے کے لیے پرندوں کے پروں میں جی پی ایس بیک پیک، یا موبائل بیسڈ چپ لگا کر انہیں ٹریک کیا جاتا ہے۔ اس طرح وائلڈ لائف (جنگلی حیات) کے ماہرین پرندوں کی طویل اڑان کے دوران ڈیٹا جمع کر کے ان کی ہلاکت کی اصل وجوہات معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ انہیں معدومیت سے بچایا جا سکے۔ کلائیمیٹ چینجز اور ایکو سسٹم میں تبدیلیوں کی وجہ سے پرندے اپنے مسکن بھی تیزی سے تبدیل کرنے لگے ہیں۔ 

وائلڈ لائف انسٹی ٹیوٹ انڈیا  کی ٹیگ سارس کے ساتھ کیا ہوا؟

وائلڈ لائف انسٹی ٹیوٹ ڈیرہ دھون انڈیا کےسینیئر محقق ڈاکٹر سریش کمار نے ڈوئچے ویلے اردو کو بتایا کہ عام سارس کو وسطی ایشیا کی اہم انواع میں سے ایک سمجھا جاتا ہے، جن کی طویل ہجرت کو جی پی ایس کے ذریعے با آسانی ٹریک کیا جا سکتا ہے،''ہم گزشتہ دو برس سے اس پراجیکٹ پر کام کر رہے ہیں۔ ماضی میں بہت بڑی تعداد میں سارس بھارت سے پاکستان کے راستے ہجرت کر کے روس، قازقستان وغیرہ تک جاتی تھیں مگر اب ان کی تعداد میں نمایاں کمی دیکھنے میں آرہی ہے۔‘‘

 ان کے بقول،’’لا محالہ یا تو ان کا بڑی تعداد میں شکار کیا جا رہا ہے یا موسمی تبدیلیوں کے سبب یہ دوران سفر ہلاک ہو رہی ہیں، جس کی اصل وجوہات معلوم کرنے کے لیے ہم نے چند ویڈلا کو ٹیگ کیا اور دو برس سے ان کی ہجرت کا ڈیٹا جمع کر رہے ہیں‘‘۔

ڈاکٹر سریش نے بتایا کہ اس برس ٹیگ شدہ سارس نے معمول کے بر خلاف 29 مارچ  کو اپنے واپسی کے سفر کا آغاز کیا اور یہ کر اچی کے راستے میانی ہور پہنچی،’’ 2 اپریل تک ہمیں جی پی ایس سگنلز موصول ہوئے۔ یہ سارس کسی علاقے میں 4،5 روز سے زیادہ قیام نہیں کرتیں اور اپریل کے اواخر تک قازقستان پہنچ جاتی ہیں لہذا مئی تک کوئی اطلاع نہ ملنے پر ہم تشویش کا شکار ہیں۔‘‘

ڈاکٹر سریش نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ عین ممکن ہے کہ ویڈلا کو شکار کر لیا گیا ہو یا وہ کسی حادثے کا شکار ہو گئی مگر اس صورت میں بھی ٹرانسمیٹر سے سگنل موصول ہوتے رہتے،’’ لہذا ہمارا اندازہ ہے کہ ٹرانسمیٹر فیل ہو گیا ہے۔ ہمیں زیادہ تشویش اس لیے ہے کہ بھارت فروری سن 2020 سے ہجرت کرنے والے پرندوں پر تحقیق سے متعلق سینٹرل ایشیاء فلائی وے پراجیکٹ پر کام کر رہا ہے اور اس مقصد کے لیے گم شدہ ویڈلا کو 12 مارچ سن 2020 کو ٹیگ کیا گیا تھا۔ اس کے بعد سارس کی دو مرتبہ ہجرت معمول کے مطابق رہی۔‘‘

سارس کی ایک نایاب نسل ’ویڈلا‘
تصویر: WII

میانی ہور کے مقامی افراد کیا کہتے ہیں؟

میانی ہور بلوچستان کے رہائش صحافی فواد لاس نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا کہ میانی ہوراور ملحقہ گڈانی کے ساحلی علاقوں میں سارس اور دیگر ہجرتی پرندے پہلے بہت بڑی تعداد میں نظر آتے تھے مگر گزشتہ چند سالوں سے ان کی تعداد میں نمایاں کمی دیکھی گئی ہے۔ ان کے بقول چونکہ زیادہ تر علاقہ پاکستان نیوی کی تحویل میں ہے اور سپارکو بھی یہاں تجربات کرتا رہتا ہے اس لیے شکار یہاں بالکل بند ہے۔ ان کے خیال میں گم شدہ سارس یا تو بجلی کے تاروں سے ٹکرا کر کسی حادثے کا شکار ہو گئی یا پھر جی پی ایس ٹریکر فیل ہو گیا ہے،''اس کا سراغ لگانا ہمارے لیے ممکن نہیں‘‘۔

دنیا بھر میں پرندوں کی جی پی ایس ٹریکنگ کے اصول کیا ہیں؟

ڈاکٹر سریش کمار نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے مزید بتایا کہ جو کمپنیاں یہ ٹیگ تیار کرتی ہیں ان کا دنیا بھر میں نیٹ ورک فراہم کرنے والے اداروں سے معاہدہ ہوتا ہے،''آپ اسے یوں سمجھ لیں کہ جب ہماری ٹیگ سارس پاکستان کے علاقوں سے گزرتی ہے تو نیٹ ورک فراہم کرنے والے رابطہ قائم کر کے ڈیٹا منتقل کرتے ہیں، جس کا معاوضہ ٹیگ بنانے والی کمپنی ادا کرتی ہے۔ اس ٹیگ کے ذریعے ہمیں ہر دس منٹ بعد لوکیشن کا ڈیٹا ملتا رہتا ہے اور سولر پاور سے چلنے والے ٹرانسمیٹر کو میں یا میری ٹیم ہی بند کر سکتی ہے۔‘‘

انہوں نے اس کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے کہا کہ پچھلے برس یہ سارس کیرتھر نیشنل پارک سے ہو کر منچھر جھیل اور پھر کوئٹہ کے قریب سے گزرتی ہوئی افغانستان کے راستے اپنی ہجرتی پناہ گاہ تک 25 اپریل کو پہنچی تھی۔ اسی طرح 29 ستمبر سن 2020 کو سردیوں کی ہجرت کا آغاز ہوا اور 10 اکتوبر سن 2020 کو یہ سارس احمد آباد میں آبی پناہ گاہ تک پہنچی،’’اس کا پورا ڈیٹا ہمارے پاس موجود ہے۔ اسی سال ہماری ایک ٹیگ فلیمنگو (راج ہنس) بھی میانی ہورتک پہنچی تھی۔ چونکہ یہ علاقہ آبی پرندوں کے لیے کشش رکھتا ہے لہذا ہم یقین رکھتے ہیں سارس کا شکار ہر گز نہیں کیا گیا۔‘‘

پرندوں کی جی پی ایس ٹریکنگ کے فوائد کیا ہیں ؟

وائلڈ لائف ایکٹ ایمرجنسی رسپانس کے منیجر پی جے رابرٹس کہتے ہیں کہ نایاب ہوتی پرندوں اور جانوروں کی انواع کو لاحق خطرات کی جڑ تک پہنچے بغیر ان کی نسل کی حفاظت کرنا ممکن نہیں۔ ان کے بقول بہت سے کیسز میں یہ سوچ لیا جاتا ہے کہ ان کا شکار کر لیا گیا ہو گا اور دیگر عوامل کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔

 پی جے رابرٹس کہتے ہیں کہ اس کی ایک مثال گریٹ انڈین بسٹرڈز(شتر مرغ کی ایک قسم) کی ہے، جو بھارت میں جیسل میر اور راجھستان کے علاقوں میں کثرت سے پائے جاتے تھے مگر اب محض 200 باقی رہ گئے ہیں۔ ان کے بقول انڈین وائلڈ لائف انسٹی ٹیوٹ یہ خدشہ ظاہر کرتا رہا کہ پاکستان کے ملحقہ سرحدی علاقوں میں کثرت سے شکار ہو رہا ہے مگر موبائل بیسڈ جی پی ایس ٹریکنگ سے ثابت ہوا کہ زیادہ تر پرندے راجھستان اور جیسل میر میں پاور لائن اور ونڈ ملز سے ٹکرانے کے باعث ہلاک ہو رہے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ اسی طرح جنوبی افریقہ میں دس نایاب نسل کے گدھوں کی جی ایس پی  ٹریکنگ سے پتا لگا کہ دس میں سے سات ٹرین سے ٹکرانے اور ایک پاور لائن سے ٹکرا کر ہلاک ہوئے، جبکہ صرف دو کا شکار کیا گیا،’’دنیا بھر میں نایاب نسل کے پرندوں کی حفاخت کے لیے جی پی ایس ٹریکنگ کا استعمال ہو رہا ہے اور کچھ ممالک میں ٹیگز باقاعدہ رجسٹرڈ ہوتے ہیں۔‘‘

اس حوالے سے پاکستان میں کی جانے والی تحقیق کے بارے میں جاننے کے لیے ڈی ڈبلیو اردو نے وائلڈ لائف پاکستان سے رابطے کی کوشش کی مگر کوئی جواب نہیں ملا۔ 

بازوں کی اسمگلنگ، خلیجی ممالک کے لیے پاکستان ’ایک جنت‘