ناورو کے حراستی مرکز ميں قيد تارکين وطن اپيل کے حق سے محروم
2 اپریل 2018
خبر رساں ادارے اے ايف پی کی آسٹريلوی شہر سڈنی سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق ناورو کی حکومت نے آسٹريليا کے قانونی نظام کے ساتھ تعلقات منقطع کر ليے ہيں جب کہ فی الحال فيصلوں کے خلاف اپيل دائر کرنے کا کوئی متبادل نظام بھی متعارف نہيں کرايا گيا ہے۔ حکومت نے دو اپريل کو اعلان کيا کہ اس پيش رفت سے وہ کيسز متاثر نہيں ہوں گے، جن پر اس وقت عدالتوں ميں کارروائی جاری ہے۔
پچھلی چار دہائيوں سے زائد عرصے سے آسٹريليا کے ہائی کورٹ ميں کيسز کے فيصلوں کے خلاف اپيليں دائر کرائی جاتی رہی ہيں۔ ناورو کے حراستی مرکز ميں ايسے ہزاروں پناہ گزين قيد ہيں، جو غير قانونی انداز ميں آسٹريليا جانے کی کوششوں ميں تھے۔ بين الاقوامی مبصرين اور متعدد غير سرکاری تنظيميں اس کيمپ ميں سول اور انسانی حقوق کی خلاف ورزيوں کی شکايات کرتے آئے ہيں۔
آسٹريليا ميں انسانی حقوق کے تحفظ کے ليے سرگرم ايک وکيل جارج نيو ہاؤس نے خبردار کيا ہے کہ اس سے کينبرا حکومت کی جانب سے اپنے ہاں پہنچنے والے غير قانونی تارکين وطن متاثر ہوں گے۔ ان کے بقول اس نئے فيصلے سے قبل سياسی پناہ کے متلاشی افراد کو يہ حق حاصل تھا کہ وہ عدالتی فيصلوں کے خلاف کم از کم اپيل کر سکتے تھے۔ ’’اپيل کے حق کے بغير تارکين وطن کو ان کے وطن واپس بھيجے جانے، انہيں نقصان پہنچائے جانے اور ان کی ہلاکت تک کا خطرہ لاحق ہے۔‘‘
ناورو کے حراستی مرکز پر اس وقت تقريباً تين سو مہاجرين موجود ہيں، جن ميں عورتيں، مرد اور بچے بھی شامل ہيں۔ اميگريشن وکلاء نے ناورو حکومت کی اس اقدام پر تنقيد کی ہے۔
دوسری جانب يہ اعلان بھی کيا گيا ہے کہ ناورو ميں عنقريب اپيل کے ليے ايک مقامی نظام متعارف کرايا جائے گا۔ آسٹريليا کی وزير خارجہ نے اس پيش رفت پر کہا کہ ان کا ملک ناورو کی خود مختاری اور سالميت کا احترام کرتی ہے اور اس معاہدے کے خاتمے کے اس فيصلے کا بھی۔
ع س / ا ا، نيوز ايجنسياں