1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ناممکن کو ممکن بنانے کی کوشش

17 دسمبر 2011

پاکستان میں واقع دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو کو گرمیوں میں بھی سر کرنا انتہائی جان لیوا اور مشکل ترین چیلنج ہے لیکن اب روس کی ایک ٹیم سردیوں میں چوٹی سر کرتے ہوئے ناممکن کو ممکن بنانے کا ارادہ رکھتی ہے۔

https://p.dw.com/p/13Ugu
تصویر: Stefan Nestler

اب تک سردیوں میں دنیا کے کسی بھی کوہ پیما نے K2 کو سر نہیں کیا ہے۔ سردیوں میں دنیا کی اس دوسری بلند ترین چوٹی پر درجہ حرارت منفی 50 سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے جبکہ ہوا کی رفتار کم از کم 70 کلومیٹر فی گھنٹہ رہتی ہے۔ اس مہم جوئی میں پندرہ روسی کوہ پیما حصہ لے رہے ہیں اور ان کو چوٹی تک پہنچنے کے لیے دو ماہ تک کا عرصہ درکار ہو گا۔ کے ٹو پہاڑ کو سر کرنے والے پہلے پاکستانی اشرف امان کا اس بارے میں کہنا ہے، ’روسی ٹیم کے پاس یہ ایک موقع ہے کہ وہ یہ چوٹی سر کر سکتی ہے کیونکہ روس کی یہ ٹیم انتہائی مضبوط اور تجربہ کار ہے لیکن کامیابی کا انحصار صرف اور صرف موسم پر ہوگا‘۔

Ramin shojaei, broad peak Flash
کے ٹو کی بلندی آٹھ ہزار چھ سو گیارہ میٹر ہےتصویر: DW

پاکستان کے چین سے ملحقہ اس علاقے میں سردیوں میں راتیں طویل اور دن مختصر ہو جاتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ گرمیوں کی نسبت سردیوں میں یہاں کا موسم دو گنا زیادہ ٹھنڈا ہو جاتا ہے۔ سردیوں میں کوہ پیماؤں کو موسم میں مزید شدت کے سامنے کے ساتھ ساتھ زیادہ خوراک اور زیادہ سازوسامان کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔

Ramin shojaei, broad peak
پاکستان کے چین سے ملحقہ اس علاقے میں سردیوں میں راتیں طویل اور دن مختصر ہو جاتے ہیںتصویر: DW

کے ٹو کی بلندی آٹھ ہزار چھ سو گیارہ میٹر ہے اور یہ چین اور پاکستان کی سرحد پر واقع ہے۔ ماؤنٹ ایورسٹ کے بعد یہ دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی ہے، تاہم اسے ماؤنٹ ایورسٹ سے کہیں زیادہ خطرناک خیال کیا جاتا ہے۔

اس کی بلندی 8611 میٹر ہے۔ اسے دو اطالوی کوہ پیماؤں لیساڈلی اور کمپانونی نے 31 جولائی 1954 کو پہلی مرتبہ سر کیا تھا۔

1856ء میں اس پہاڑ کا پہلی بار گڈون آسٹن نے سروے کیا۔ تھامس ماؤنٹ گمری بھی اس کے ساتھ تھے۔ انہوں نے اس کا نام کے ٹو رکھا کیونکہ سلسلہ کوہ قراقرم میں یہ چوٹی دوسرے نمبر پر تھی۔ کے ٹو پر چڑھنے کی پہلی مہم سن 1902 میں ہوئی جو کہ ناکامی پر ختم ہوئی۔

رپورٹ: امتیاز احمد

ادارت: عاطف بلوچ