1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نامزد اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو : ایک تعارف

امتیاز احمد20 فروری 2009

اسرائیلی صدر شمون پیریز نے نیتن یاہو کو حکومت سازی کی باقاعدہ دعوت دے دی ہے۔ نیتن یاہو کو دائیں بازو کی جماعتوں کی حمایت حاصل ہے۔

https://p.dw.com/p/Gsfq
نتین یاہو انتخابات میں اپنا ووٹ ڈالتے ہوئےتصویر: AP

اسرائیلی قوم پسند رہنما بین یامین نیتن یاہو فلسطینیوں کے خلاف سخت مؤقف رکھتے ہیں اورشائد یہی اسرائیل میں ان کی بہت زیادہ مقبولیت کی ایک بڑی وجہ بھی ہے۔ نیتن یاہوامریکی لہجے میں روانی سے انگریزی بولتے ہیں اورامریکی ٹیلی ویژن چینلز پر سیاسی مباحثوں میں بھی اکثرمدعوکئے جاتے ہیں۔ سن 1996 میں جب وہ سربراہ حکومت بنے تو وہ اسرائیل کے اسرائیل ہی میں پیدا ہونے والے پہلے وزیر اعظم تھے۔

حالیہ پارلیمانی انتخابات میں دائیں بازوکی طرف جھکاؤ رکھنے والے لیکوڈ بلاک کے سربراہ کے طور نیتین یاہو نے قادیمہ پارٹی کی خاتون سربراہ اور ملکی وزیر خارجہ زیپی لیونی کے خلاف بھر پورسیاسی مہم چلائی۔ اس وقت نیتن یاہو کی عمر 59 برس ہے اوران کا تعلق لیٹویا سے آ کر اسرائیل میں آباد ہونے والے ایک ایسے خاندان سے ہے جو عظیم تراسرائیل کے نظریے پریقین رکھتا ہے۔

Benjamin Netanyahu
نتین یاہو کو ایک سخت گیر موقف کا حامل سیاستدان سمجھا جاتا ہےتصویر: AP

90 کی دہائی کے وسط میں جب بین یامین نیتن یاہواسرائیلی سربراہ حکومت بنے تھے تو اوسلو میں اسرائیل اورفلسطینیوں کے مابین طے پانے والے معاہدے کو ابھی صرف تین برس ہی ہوئے تھے۔ نیتن یاہو نے اس معاہدےاور اس سے قبل فلسطینیوں کے ساتھ مذاکرات کی سخت مخالفت کی تھی۔ لیکن جب وہ خود وزیراعظم بنے توانہیں بھی نہ صرف فلسطینیوں کے ساتھ مذاکرات کرنا پڑے تھے بلکہ انہی کے دورحکومت میں اسرائیل کے شام کے ساتھ مذاکرات بھی عمل میں آئے تھے۔

نیتن یاہو دورمیں اسرائیل کے فلسطینیوں اورشام دونوں کے ساتھ بے نتیجہ ہی رہے تھے کیونکہ تب بھی نیتن یاہو کا مؤقف یہ تھا کہ اسرائیل نہ تو کبھی گولان کی پہاڑیوں سے دستبردار ہوگا اورنہ ہی یروشلم کی حیثیت سے متعلق کوئی مذاکرات کئے جائیں گے۔ کئی سیاسی مؤرخین یہ دعوے بھی کرتے ہیں کہ معاہدہ اوسلو کی ناکامی کی ایک بڑی وجہ نیتن یاہوبنے۔

Benjamin Netanyahu
لیکوڈ پارٹی کے سربراہ نتین یاہوتصویر: AP

سن 2003 میں جب لیکوڈ پارٹی دوبارہ آرئیل شارون کی سربراہی میں برسراقتدارآئی تو بین یامین نیتن یاہوکووزیرخزانہ بنا دیا گیا تھا لیکن جونہی آرئیل شارون نے غزہ پٹی کے علاقے میں قائم کردہ یہودی بستیاں خالی کرنے کی بات کی تو نیتن یاہواحتجاجا وزیرخزانہ کے عہدے سے مستعفی ہو گئے تھے۔


نیتن یاہو کے استعفے کے بعد اس دور کے وزیراعظم شارون نے قادیمہ پارٹی کے نام سے ایک نئی سیاسی جماعت بنالی اورنیتن یاہو لیکوڈ پارٹی کے سربراہ بن گئے۔ تب لیکوڈ پارٹی کے اس نئے سربراہ نے کہا تھا کہ وہ کسی ایسے شخص کے ساتھ ایک قدم بھی نہیں چل سکتے جو ان کےخیال میں اسرائیل کی سلامتی کو خطرے میں ڈال دے۔

Ariel Scharon und Benjamin Netanyahu
جب آرئیل شارون وزیر اعظم بنے تو بین یامین نیتن یاہوکووزیرخزانہ بنا دیا گیا تھاتصویر: AP

مزید کچھ عرصے بعد جب غزہ پٹی کے فلسطینی علاقے میں حماس کی حکومت قائم ہوئی تو نیتن یاہو کا مؤقف یہ تھا کہ غزہ پٹی کا علاقہ ایک ایرانی اڈاہ ہے اور تل ابیب یا اشکلون کے کنارے ایسا کوئی ایرانی اڈہ قائم نہیں رہ سکے گا۔

بین یامین نیتن یاہوآج بھی خطے میں اسرائیل کی حریف طاقتوں کے بارے میں کیا سوچتے ہیں، اس کا اندازہ حالیہ انتخابات سے پہلے کی سیاسی مہم کے دوران ان کے اس بیان سے واضح طور پر ہوگیا تھا:'' مجھے یقین ہے کہ ہم جیتیں گے۔ لیکن ہم اس طرح جیتنا چاہتے ہیں کہ اسرائیل کودرپیش مسائل سے نمٹ سکیں ۔ میں بڑے مسائل کی بات کررہا ہوں، ایران کی اور حماس کی حکومت کی صورت میں اس اڈے کی بھی جو ابھی تک تباہ نہیں ہوا۔‘‘