1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ناروے حملے، ہلاکتوں کی تعداد 91 ہو گئی

23 جولائی 2011

جمعے کے روز ناروے کے دارالحکومت میں ہونے والے بم دھماکے اور ایک نواحی جزیرے پر حکومتی جماعت کے یوتھ کنونشن میں ہونے والے فائرنگ کے واقعے میں ہلاکتوں کی مجموعی تعداد 91 تک پہنچ گئی ہے۔

https://p.dw.com/p/1224e
تصویر: dapd

اوسلو کے مرکزی حصے میں ایک حکومتی عمارت میں بم دھماکے سے کچھ گھنٹے بعد دارالحکومت سے 10 کلومیٹر دور واقع ایک جزیرے میں لیبر پارٹی کے یوتھ کنونشن میں ایک مسلح شخص نے فائرنگ کر کے کم از کم 84 افراد ہلاک اور متعدد کو زخمی کر دیا۔ پولیس کے مطابق دونوں حملوں کے درمیان تعلق ہوسکتا ہے۔ دریں اثناء پولیس نے فائرنگ کے الزام میں ایک شخص کو گرفتار کر لیا۔ اوسلو کے مرکزی علاقے میں ہونے والے بم دھماکے میں سات افراد ہلاک ہوئے جبکہ آس پاس واقع اہم سرکاری عمارتوں کو شدید نقصان پہنچا۔

ناورے کی پولیس کے ترجمان نے ان ہلاکتوں کی تصدیق ہفتہ کی صبح کی۔ ترجمان کے مطابق گرفتار کردہ شخص کو دونوں مقامات پر دیکھا گیا۔ تاہم پولیس نے یہ نہیں بتایا کہ آیا یہ شخص اس پوری دہشت گردانہ کارروائی میں تنہا ملوث تھا یا وہ کسی گروپ کا رکن ہے۔

اس سے قبل پولیس چیف Sveinung Sponheim نے جمعے کی رات اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ دارالحکومت اوسلو سے دس کلومیٹر دور واقع جزیرے اٹویا میں فائرنگ کے واقع میں دس افراد ہلاک ہوئے۔ Sveinung Sponheim نے ان دونوں واقعات میں ہلاک شدگان کی مجموعی تعداد 17 بتائی تھی۔

Oslo / Anschlag / Bombe / NO FLASH
دھماکے سے قریبی واقع ایک عمارت کی تباہی کا منظرتصویر: dapd

انہوں نے کہا کہ فائرنگ کے اس واقعے سے اٹویا میں خوف ہراس پھیل گیا جبکہ اس کنونشن میں موجود سینکٹروں نوجوانوں کو عمارت سے نکالا گیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس واقعے کے بعد بم ڈسپوزل ماہرین نے علاقے کی تلاشی لی۔

Sponheim کے مطابق پولیس کے مشکوک شخص سے پوچھ گچھ کر رہی ہے، جو گرفتاری کے وقت پولیس جیسی وردی میں ملبوس تھا۔

پولیس کے مطابق بم دھماکے میں مجموعی طور پر 14 افراد زخمی ہوئے، جن میں سے دو کی حالت تشویش ناک ہے۔

ناورے کے وزیراعظم Stoltenberg نے اپنے ایک بیان میں صورتحال کو ’انتہائی سنجیدہ‘ قرار دیا۔ جمعے کی شام انہوں نے اہم حکومتی عہدیداروں سے ملاقات کی۔

دریں اثناء نیویارک ٹائمز اور سویڈش ڈیلی ایکسپریس کے مطابق ’ہیپلرز آف گلوبل جہاد‘ یا عالمی جہاد کے مددگار نامی ایک گروپ نے اوسلو بم دھماکے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ دوسری جانب خبررساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے ناروے کی پولیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ گرفتار شدہ ملزم انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والا ’اینٹی مسلم‘ نظریات کا حامی شخص ہے، تاہم اس کی اس کارروائی کی وجہ واضح نہیں ہو سکی۔

پولیس نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ مرکزی اوسلو کی طرف نہ جائیں اور اپنے موبائل فونز کا بے جا استعمال نہ کریں، تاکہ نیٹ ورکس پر کم بوجھ پڑے۔

رپورٹ عاطف توقیر

ادارت افسر اعوان