1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نارمل بلڈ شوگر لیول بھی دماغ کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے

27 ستمبر 2012

آسٹریلیا میں طبی ماہرین نے پتہ چلایا ہے کہ وہ لوگ جنہیں خون میں شوگر لیول کے حوالے سے اب تک نارمل سمجھا جاتا ہے، ان میں بھی ذیابیطس ٹائپ ٹو اور ڈمینشیا کے مریضوں کی طرح دماغ کے سکڑنے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔

https://p.dw.com/p/16DnZ
تصویر: Fotolia/Andrea Danti

آسٹریلیا کے شہر سڈنی سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق ڈاکٹروں کو اس بارے میں نئے سرے سے غور کرنا چاہیے کہ نارمل بلڈ شوگر لیول کس کو کہتے ہیں۔ آسٹریلین ماہرین کے مطابق یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ ذیابیطس ٹائپ ٹو کے مریضوں میں دماغ سکڑنے کا خطرہ موجود ہوتا ہے۔ یہ بات ڈمینشیا کے مریضوں سے بھی ثابت ہو چکی ہے۔ لیکن اب یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ایسے افراد جن کے خون میں شوگر کی مقدار نارمل سمجھے جانے والے لیول کے اوپر والی حد کے قریب ہوتی ہے، ان میں بھی دماغ کے سکڑنے کا خطرہ موجود ہوتا ہے۔

Silhouette des menschlichen Gehirns Flash-Galerie
آسٹریلین ماہر نے مشورہ دیا ہے کہ دماغ کے سکڑنے کے عمل سے بچنے کے لیے عام لوگوں کو اچھی خوراک کھانی چاہیےتصویر: Fotolia/Argus

کینبرا میں آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی کے دماغ سے متعلق ریسرچ کے شعبے کے سربراہ نکولس چَیربُوئن Nicolas Cherbuin کہتے ہیں کہ انہیں اور ان کے ساتھیوں کو چند نئے حقائق کا علم ہوا ہے۔ ان کے مطابق یہ دیکھا گیا کہ وہ لوگ جن کا بلڈ شوگر لیول معمول کی حدود کے اندر تھا، اور ان میں بھی جو ان حدود سے باہر تھے، خون میں شوگر کی اونچی سطح کا تعلق دماغ کے hippocampus نامی حصے کے کافی زیادہ سکڑنے کے ساتھ پایا گیا۔

آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی کی برین لیبارٹری کے سربراہ کے مطابق اگر دوسرے ماہرین کی ریسرچ سے بھی دوبارہ یہی نتائج دیکھنے میں آئے، تو شاید یہ بات لازمی ہو جائے کہ خون میں شوگر کی نارمل سطح اور ذیابیطس کی بیماری سے متعلق معیارات کا تعین دوبارہ کیا جائے۔

Rückkehrer NRW Instituts "Life and Brain"
انسٹیٹیوٹ آف لائف اینڈ برینتصویر: Universität Bonn

نکولس چَیربُوئن اور ان کی ٹیم نے چار سال تک 60 اور 64 سال کے درمیان کی عمر کے 249 افراد کا مشاہدہ کیا۔ ان افراد کے خون میں شوگر کی سطح چار اور 6.1 ملی مولز فی لٹر کے درمیان یعنی بالکل معمول کے مطابق تھی۔ ان آسٹریلوی محققین کو پتہ یہ چلا کہ ان میں سے جن افراد کا بلڈ شوگر لیول نارمل کی اوپر والی حد کے قریب تھا، ان میں دماغ کے hippocampus اور Amygdala نامی حصوں کے سکڑ جانے کا امکان زیادہ تھا۔ اس کے برعکس جن زیر مشاہدہ افراد کے خون میں گلوکوز کی سطح نارمل کی نچلی حد کے قریب تھی، ان میں دماغ کے سکڑنے کا خطرہ کم پایا گیا۔ انسانی دماغ کے یہ دونوں حصے اچھی یادداشت کے لیے بہت اہم ہیں۔

نکولس چَیربُوئن کے مطابق ذیابیطس ٹائپ ٹو کا تعلق اکثر غیر صحت مند لائف اسٹائل سے ہوتا ہے۔ یہی غلط لائف اسٹائل خون میں گلوکوز کی اونچی سطح کا سبب بھی بنتا ہے۔

اس آسٹریلین ماہر نے مشورہ دیا ہے کہ دماغ کے سکڑنے کے عمل سے بچنے کے لیے عام لوگوں کو اچھی خوراک کھانی چاہیے، خود کو فٹ رکھنا چاہیے اور ذہنی دباؤ کا سبب بننے والے چیزوں سے بچنا چاہیے۔ ورزش نہ کرنا اور مستقل ذہنی دباؤ خون میں گلوکوز کی سطح کو متاثر کرتے ہیں۔ ان کے مطابق ایک صحت مند طرز زندگی میں ان باتوں کا دھیان رکھا جانا چاہیے۔

(ij /aba ( dpa