1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نائجیریا میں سو لاشیں برآمد، اقوام متحدہ کی تشویش

عاطف بلوچ21 مارچ 2015

نائجیریا کے شہر داماساک میں ایک اجتماعی قبر سے سو لاشیں برآمد ہوئی ہیں۔ چاڈ اور نائجر کی افواج نے اس شہر کو حال ہی میں اسلام پسند تنظیم بوکو حرام کے قبضے سے آزاد کرایا تھا۔

https://p.dw.com/p/1Euvz
تصویر: Reuters/Emmanuel Braun

خبررساں ادارے اے ایف پی نے چاڈ کی فوج کے ترجمان کے حوالے سے بتایا ہے کہ شہر کے نواحی علاقے میں کم ازکم سو لاشیں برآمد ہوئی ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ ان میں سے کچھ لاشیں خراب بھی ہو چکی ہے۔ نائجر اور چاڈ کی فوج نے ہمسایہ ملک نائجیریا میں کارروائی کرتے ہوئے داماسک کو نو مارچ کے دن آزاد کرایا تھا۔ قبل ازیں اس شہر پر شدت پسند تنظیم بوکو حرام کے جنگجوؤں نے قبضہ کر رکھا تھا۔

چاڈ کی فوج کے ترجمان کرنل اعظم برمانڈو آگونا نے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ غالبا ان افراد کو دو ماہ قبل قتل کیا گیا تھا۔ انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ان لوگوں کو بوکو حرام کے جنگجوؤں نے ہلاک کیا ہے۔ تاہم ان ہلاکتوں کا ذمہ دار کون ہے ، اس بارے میں آزادانہ طور پر معلومات حاصل نہیں ہو سکی ہیں۔.

کرنل اعظم برمانڈو آگونا کا کہنا تھا کہ ہلاک کیے گئے ان افراد میں سے کئی کے سر قلم کیے گئے ہیں جبکہ کچھ کو گولیاں مار کر بھی ہلاک کیا گیا ہے، ’’سر یہاں ملے تو جسم وہاں۔‘‘ یاد رہے کہ نائجر اور چاڈ کی افواج نے ابوجہ حکومت کے تعاون سے آٹھ مارچ کو بوکو حرام کے خلاف ایک بڑی عسکری کارروائی شروع کی تھی، جس کے ایک روز بعد ہی داماسک پر قابض ان شدت پسندوں کو پسپا کر دیا گیا تھا۔

Tschad Armee Boko Haram
نائجر اور چاڈ کی افواج نے ابوجہ حکومت کے تعاون سے آٹھ مارچ کو بوکو حرام کے خلاف ایک بڑی عسکری کارروائی شروع کی تھیتصویر: Reuters/E. Braun

اقوام متحدہ کے مطابق ان اسلامی جنگجوؤں نے چوبیس نومبر کو اس شہر پر قبضہ کیا تھا، جس کے بعد پچاس افراد کو ہلاک کر دیا گیا تھا جبکہ تین ہزار مقامی باشندے وہاں سے فرار ہونے پر مجبور ہو گئے تھے۔

انسانی بحران کی صورتحال پیدا ہو چکی ہے، اقوام متحدہ

اقوام متحدہ کے نائب سیکرٹری جنرل رابرٹ پائپر نے کہا ہے کہ بوکو حرام کی پرتشدد کارروائیوں کی وجہ سے شمالی نائجیریا کی آبادی کی زندگی انتہائی مشکل ہو چکی ہے۔ اے ایف پی کو ایک خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے اس اعلیٰ سفارتکار کا کہنا تھا کہ اس علاقے میں ایسے حملوں کی وجہ سے خوارک کی قلت بھی پیدا ہونا شروع ہو گئی ہے۔

نائجیریا کو ایک اسلامی ریاست بنانے کے خواہاں شدت پسند گروپ بوکو حرام کی بغاوت کی وجہ سے 2009ء کے بعد سے اب تک کم ازکم تیرہ ہزار افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق اس دوران 1.5 ملین افراد بے گھر بھی ہوئے ہیں۔ اگرچہ ابوجہ حکومت نے ہمسایہ ممالک نائجر اور چاڈ کے ساتھ مل کر حالیہ کچھ مہینوں میں بوکو حرام کے خلاف کامیاب عسکری کارروائیاں کی ہیں لیکن اس لڑائی کی وجہ سے متاثرہ علاقوں میں انسانی بحران کی سی کیفیت پیدا ہو چکی ہے۔

رابرٹ پائپر کے بقول ان عسکری جھڑپوں کی وجہ سے لوگوں کی ایک بڑی تعداد اپنے کھیتوں سے رابطے کھو چکی ہے جبکہ کاشت کاری نہ ہونے کے سبب خوراک کی قلت کا شدید امکان پیدا ہو چکا ہے، ’’ہمارا اندازہ ہے کہ گزشتہ سیزن میں بورنو ریاست کی قابل کاشت اراضی کے صرف بیس فیصد حصے پر کاشت کاری ممکن ہو سکی ہے۔‘‘ انہوں نے خبردار کیا کہ صورتحال انتہائی ابتر ہوتی جا رہی ہے۔

اقوام متحدہ کے نائب سیکرٹری جنرل نے یہ بھی کہا کہ بوکو حرام کے جنگجو ہمسایہ ممالک کے ان علاقوں پر بھی حملے شروع کر چکے ہیں، جہاں نائجیریا سے فرار ہو کر پناہ لینے والوں نے مسکن بنا رکھا ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ شورش زدہ بورنو ریاست سے فرار ہو کر کیمرون، نائجر اور چاڈ میں پناہ لینے والے افراد کی تعداد دو لاکھ بنتی ہے۔

رابرٹ پائپر نے عالمی برداری پر زور دیا ہے کہ اس بحران سے متاثر ہونے والے افراد کی مدد کی اشد ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ عالمی ادارہ اپنے طور پر جلد ہی ان افراد کی مدد کے لیے ایک خصوصی پروگرام شروع کرنے والا ہے، جس کے تحت خوارک کی قلت سے نمٹنے کی کوشش کی جائے گی۔ اسی طرح اقوام متحدہ میں انسانی امداد کی سربراہ ویلیری آموس نے بھی جمعرات کے دن اعلان کیا تھا کہ اقوام متحدہ اپنی ہنگامی امداد کے خصوصی پروگرام سے اٹھائیس ملین ڈالر کی رقم نائجیریا کے بحران کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے افراد کی مدد کے لیے مختص کرے گا۔