1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نئی جمہوری حکومت اور پاکستانی میڈیا

8 جون 2013

پاکستان میں مسلم لیگ نواز گروپ کے سربراہ میاں محمد نواز شریف کی قیادت میں قائم ہونے والی نئی جمہوری حکومت کے حوالے سے ذرائع ابلاغ میں زیادہ تر مثبت طرز عمل کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/18lvv
تصویر: Reuters

نواز شریف کی طرف سے خیبر پختونخواہ میں تحریک انصاف اور بلوچستان میں قوم پرست جماعتوں کے مینڈیٹ کا احترام کرنے کی تعریف کی جا رہی ہے، البتہ میڈیا کے ایک بہت ہی قلیل حصے میں نواز شریف کی پاک بھارت پالیسی اور ان کے ماضی کے رویوں کے حوالے سے ہلکی پھلکی تنقید بھی دیکھنے میں آ رہی ہے۔

انگریزی اخبار ڈیلی ٹائمزکے ایڈیٹر راشد رحمان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستانی میڈیا نے ملک کو درپیش گھمبیر مسائل کے حل کے حوالے سے نئی حکومت سے وابستہ عوامی توقعات کو بہت بڑھا دیا ہے۔ ان کے بقول یہ بات درست نہیں ہے کہ ہم بے صبرے ہو کر اس حکومت کے ہنی مون پیریئڈ کے ختم ہونے کا بھی انتظار نہ کر سکیں۔ ان کے بقول جلا وطنی اور میثاق جمہوریت کے بعد آج ہمارے سامنے ایک بدلا ہوا نواز شریف ہے اور اس سے مسائل کے حل کی امید وابستہ کی جا سکتی ہے۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بعض ٹی وی چینلز پر نواز شریف کی حلف برداری اور انتخابی مہم کے مناظر کے ساتھ بار بار یہ گانا بھی سنوایا جا رہے ہے کہ "جو وعدہ کیا وہ نبھانا پڑے گا"۔

REUTERS/Damir Sagolj
عوام نواز شریف سے معجزوں کی توقع کر رہے ہیںتصویر: Reuters

ممتاز کالم نگار سجاد میر کہتے ہیں کہ پاکستانی میڈیا کا نئی جمہوری حکومت کے ساتھ رویہ بہت ہی مثبت ہے، حتیٰ کہ دائیں اور بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے وہ کالم نگار جو عمران خان اور آصف زرداری کی حمایت میں لکھ رہے تھے، وہ بھی نوازشریف حکومت کے بارے میں اچھی توقعات کا اظہار کر رہے ہیں۔ "ہم نے اتنے دکھ سہے ہیں، اتنی مار کھائی ہے، کہ اب ہم سب چاہتے ہیں کہ ہمیں اچھے دن دیکھنے کو ملیں۔‘‘

انگریزی اخبار ڈان نے "اگلا بڑا لمحہ" کے عنوان سے اپنے اداریے میں لکھا ہے کہ اب ساری نظریں چند روز بعد ہونے والی بجٹ تقریر کی طرف مرکوز ہیں کیوں کہ اس سے ہی نئی حکومت کی ترجیحات کا صحیح طور پر اندازہ ہو سکے گا۔ اخبار کے مطابق اس حکومت کے اقتصادی فیصلوں سے معلوم ہوگا کہ یہ مسائل کے حل میں کتنا کامیاب ہو سکے گی۔

روزنامہ دا نیشن نے اپنے اداریے " کیا تیسری مرتبہ حکومت ملنا خوش قسمتی ہے؟" میں لکھا ہے کہ جمہوری نظام کو بچانے کے لیے نواز شریف کو ماضی کی غلطیوں سے اجتناب کرنا ہوگا۔ اخبار کے مطابق ملک کے الجھے ہوئے مسائل کے حل کے لیے نواز شریف کے لیے محض دو بار وزارت عظمی کا تجربہ رکھنا  کافی نہیں ہے۔ نواز شریف کو یہ ذہن میں رکھنا ہو گا کہ وہ ایک مشکل کام کرنے جا رہے ہیں۔

ایکسپریس ٹریبیون کا خیال ہے کہ پاکستان میں سویلین حکومت کی طرف سے دوسری سویلین حکومت کو پرامن طور پراقتدارکی منتقلی بذات خود ایک بڑی کامیابی ہے، اور اب نواز شریف کو عوامی اعتماد پر پورا اترنے کے لیے اچھی کارکردگی دکھانا ہو گی۔

ایک اور انگریزی اخبار ڈیلی ٹائمز نے" ایک نیا وزیر اعظم" کے عنوان سے اپنے اداریے میں لکھا ہے کہ نواز شریف وزیر اعظم تو بن گئے ہیں لیکن اگلے پانچ سال ان کی زندگی کے پانچ مشکل ترین سال ہوں گے۔ سویلین بالادستی قائم رکھتے ہوئے سول ملٹری تعلقات کی صورت کیا ہوگی اورڈرون حملوں کے مسئلے پر پاکستان کی سالمیت اور خودمختاری کو برقرار رکھتے ہوئے امریکا کے ساتھ کیسے کام کیا جائے گا، ایسے بہت سے سوالوں کا جواب تلاش کرنے کی ضرورت ہوگی۔

روز نامہ پاکستان نے اپنے اداریئے "لامحدود مسائل، محدود وسائل" میں لکھا ہے کہ میاں نواز شریف کا یہ کہنا درست ہے کہ وہ کسی خیالی جنت کا نقشہ عوام کے سامنے نہیں رکھنا چاہتے لیکن میاں صاحب کو یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ان کے ایسا کہنے کہ باوجود لوگ ان سے اور ان کی حکومت سے معجزوں کی توقع رکھتے ہیں۔

روزنامہ خبریں نے معاشی جہاد کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے ارکان پارلیمنٹ کو سادہ طرز زندگی اختیار کرنا ہوگا۔

انگریزی اخبار دا نیوز کے مطابق لگتا ہے نواز شریف حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے یکسو ہیں، اور وہ ملک کے حالات بدلنا چاہتے ہیں۔

(Photo by Daniel Berehulak/Getty Images)
عمران خان کی تحریک انصاف نواز شریف کے لیے زبردست اپوزیشن ثابت ہو سکتی ہےتصویر: Getty Images

نوائے وقت نے لکھا ہے کہ امریکی ڈرون حملوں کے مسئلے کے حل کے لیے پاکستان کی وفاقی اور خیبر پختونخواہ کی صوبائی حکومتوں میں یک جہتی پیدا کی جانی چاہیے۔

روزنامہ جنگ نے اپنے اداریے میں نواز شریف کی طرف سے قومی مسائل کے حل کے لیے تمام سیاسی قوتوں کی مشاورت سے مشترکہ قومی ایجنڈہ تشکیل دینے کی تجویز کو سراہا ہے، لیکن آگے چل کر اخبار لکھتا ہے کہ تبدیلی کی گونج میں ہونے والے انتخابات کے بعد صرف نئے حکمران ہی نہیں آئے بلکہ اب ان حکمرانوں کو ایک بدلی ہوئی قوم کا بھی سامنا ہے جو زبانی بیانات کی بجائے عملی اقدامات کو بولتے دیکھنا چاہتی ہے۔

روزنامہ دنیا اور روزنامہ اوصاف نے نواز شریف کی طرف سے پیش کیے جانے والے مستقبل کے منصوبوں کی تعریف کی ہے۔

ادھر پاکستانی کارٹونسٹ بھی اس صورت حال کے حوالے سے اپنے جذبات کا اظہار کر رہے ہیں۔ روزنامہ خبریں نے اپنے کارٹون میں نواز شریف کو ایک ویٹ لفٹر کے طور پر دکھایا ہے، جس کے سامنے موجود سلاخ کے ایک طرف وزنی مینڈیٹ ہے اور دوسری طرف بھاری عوامی توقعات ہیں، اور وہ سوچ رہا ہے کہ میں اسے کیسے اٹھا پاوں گا۔

روزنامہ جنگ کے کارٹون میں پنجاب اسمبلی کے ایوان کا اندرونی منظر دکھایا گیا ہے جہاں وزیراعلی شہباز شریف ایک دوربین کی مدد سے اپوزیشن ارکان تلاش کر رہے ہیں اور اسپیکر پنجاب اسمبلی ہاتھ کے اشارے سے انہیں بتا رہے ہیں کہ انہیں دور کسی کونےمیں اپوزیشن رکن نظر آگیا ہے۔

روز نامہ اوصاف کے کارٹون میں تحریک انصاف کے جاوید ہاشمی اعلان کر رہے ہیں کہ "نواز شریف ان کے اب بھی لیڈر ہیں"،دوسری طرف تحریک انصاف کا ایک کارکن حیران پریشان کھڑا سوچ رہا ہے کہ "ہاں تبدیلی آگئی ہے۔‘‘

رپورٹ: تنویر شہزاد، لاہور
ادارت: شامل شمس

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید