1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستجرمنی

میرکل کے بعد کا جرمنی، قدامت پسند جماعت کا منصوبہ

21 جون 2021

جرمنی میں قدامت پسند پیر کے روز اُس منصوبے کو سامنے لا رہے ہیں، جس کے تحت آئندہ انتخابات میں چانسلر انگیلا میرکل کے بغیر انتخابی میدان میں ووٹروں کی توجہ حاصل کرنے کے حوالے سے لائحہ عمل کا اعلان کیا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/3vHqS
CDU / CSU Wahlprogramm 2021 Armin Laschet Markus Söder Angela Merkel
تصویر: Kay Nietfeld/dpa/picture alliance

جرمنی میں رواں برس ستمبر میں عام انتخابات منعقد ہونے جا رہے ہیں اور ان انتخابات کی اہم ترین بات یہ ہے کہ گذشتہ سولہ برس سے چانسلر کے عہدے پر براجمان انگیلا میرکل سیاسی میدان میں موجود نہیں ہوں گی۔ چانسلر میرکل اپنے عہدے کی مدت کی تکمیل کے ساتھ ہی عملی سیاست سے دستبردار ہو جائیں گی۔ پیر کے روز قدامت پسند جماعت کرسچین ڈیموکریٹک یونین کے آئندہ انتخابات میں چانسلر کے عہدے کے امیدوار آرمِن لاشیٹ اور باویرا میں کرسچین سوشل یونین کے سربراہ مارکُس زوئڈر اس حوالے سے ایک مشترکہ لائحہ عمل کا اعلان کر رہے ہیں۔

دوسری عالمی جنگ: سوویت یونین پر نازی حملہ شرمناک تھا، میرکل

'نیٹو کو چین اور روس کی آمرانہ حکومتوں کے خلاف متحد ہوجانا چاہیے‘

چانسلر میرکل کی جماعت کرسچین ڈیموکریٹک یونین اور باویریا صوبے میں اس کی ہم خیال کرسچین سوشل یونین کے درمیان کشیدگی نے سیاسی طور پر اس بلاک کو خاصا نقصان پہنچایا ہے اور اب ان دونوں جماعتوں کے رہنماؤں کی کوشش ہے کہ کسی طرح پھر سے ووٹروں کی توجہ حاصل کی جائے۔ 26 ستمبر کے عام انتخابات پچھلے سولہ برس میں ایسے پہلے انتخابات ہوں گے، جب میرکل قدامت پسندوں کی رہنمائی نہیں کر رہی ہوں گی۔

تاہم حالیہ کچھ ہفتوں میں قدامت پسندوں کی جانب سے ایک مرتبہ پھر سیاسی سرگرمیوں میں اضافہ دکھائی دیا ہے، جہاں ایک اہم علاقائی انتخابات میں انہیں 28 فیصد ووٹروں کی حمایت حاصل ہوئی جب کہ دوسرے نمبر پر گرین پارٹی تھی، جس نے 21 فیصد ووٹ حاصل کیے۔

اتوار کے روز لاشیٹ اور زوئڈر ایک ساتھ عوامی سطح پر دکھائی دیے جس کا مقصد یکجہتی کا مظاہرہ کرنا تھا۔ اس طرح ان دونوں رہنماؤں نے الیکشن کے لیے انتخابی مہم اور منشور کی تفصیلات پر بات چیت کی۔ اس موقع پر زوئڈر کا کہنا تھا، ''حالیہ کچھ ماہ میں ایسے کم ہی مواقع تھے، جہاں ہمارے درمیان کوئی جھگڑا نہ ہوا ہو لیکن اب ہم ایک مشترکہ راستے پر ہیں۔‘‘