1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

میرکل اسلام اور مہاجرین مخالفین کے سامنے پرعزم

افسر اعوان خبر رساں ادارے
27 اگست 2017

جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے اپنے ایک انتخابی جلسے کے دوران انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے افراد کے نعروں اور مظاہرے سے مغلوب ہونے سے انکار کر دیا۔

https://p.dw.com/p/2ivVH
Deutschlandtag der Jungen Union- Angela Merkel
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Reichel

انگیلا میرکل چوتھی مدت کے لیے چانسلر بننے کی امیدوار ہیں۔ جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق انہوں نے ہفتہ 26 اگست کو ملک کے ایک وسطی شہر کوئڈلنبرگ Quedlinburg میں اسی سلسلے میں ایک انتخابی جلسے سے خطاب کیا تو وہاں موجود بعض افراد نے ان کے خلاف نعرہ بازی کی۔

مظاہرین نے پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے، جس پر مہاجرین مخالف سیاسی جماعت آلٹرنیٹیو فار ڈوئچ لینڈ (AfD) کی علامات موجود تھیں اور ساتھ ہی یہ بھی لکھا تھا کہ ’’میرکل کو جانا ہو گا‘‘ اور ایسے پلے کارڈز پر ’’شکریہ میرکل‘‘ لکھا ہوا تھا جس پر خون کے نشانات دکھائے گئے تھے۔ ان مظاہرین نے سیٹیاں بجائیں اور میرکل کی آمد پر شور و غل کیا۔

اس موقع پر میرکل کا کہنا تھا، ’’بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ شور مچا کر لوگوں کے مسائل حل کر سکتے ہیں‘‘۔ میرکل کا مزید کہنا تھا، ’’ میں اس پر یقین نہیں رکھتی اور مجھے یہ بھی یقین ہے کہ اس جگہ موجود لوگوں کی اکثریت بھی اس پر یقین نہیں رکھتی‘‘۔

AfD کو یورپی اتحاد اور جرمنی میں مہاجرین کی آمد کی مخالفت اور اسلام پر تنقید کرنے والی جماعت کے طور جانا جاتا ہے۔ اس جماعت نے 2015-16 میں مہاجرین کی بڑی تعداد میں جرمنی آمد کے دوران اس وقت مقبولیت حاصل کی تھی، جب جرمن ووٹرز کی طرف سے میرکل کی مہاجرین کے لیے سرحدیں کھولنے کی پالیسی پر سوالات اٹھائے گئے۔

کوئڈلنبرگ کے جلسے کے حوالے سے میرکل کا کہنا تھا کہ وہاں ان کو خوش آمدید کہنے والے تین ہزار کے ایک مضبوط ہجوم کے مقابلے میں مظاہرین کی تعداد بہت کم تھی۔

ہفتے ہی کے روز بعد ازاں میرکل نے ایک حکومتی پوڈکاسٹ میں کہا کہ وہ افریقہ سے جرمنی آنے والے غیر قانونی تارکین وطن کی تعداد میں بتدریج کمی چاہتی ہیں اور اس مقصد کے لیے نائجر کے شہر آگادیز میں فعال انسانی اسمگلروں کے لیے روزگار کے متبادل ذرائع تلاش کرنا بھی شامل ہے۔ میرکل کے مطابق جرمنی اس بات کو یقینی بنائے گا کہ لیبیا میں موجود مہاجرین کو اقوام متحدہ کے اداروں کی طرف سے زیادہ مدد فراہم کی جائے۔