1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

میانمار میں دستوری ترامیم: سوچی کا مذاکراتی سلسلہ شروع

عابد حسین3 دسمبر 2014

نوبل انعام یافتہ خاتون سیاستدان آنگ سان سوچی نے ملکی دستور میں ترامیم کے لیے صدر اور اسپیکروں کے علاوہ پارلیمنٹ کے فوجی اراکین کے ساتھ مذاکراتی عمل شروع کر دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1Dyf4
انگ سان سوچی اور صدر تھین سینتصویر: Reuters

میانمار کی پارلیمنٹ نے ابھی ایک روز قبل اُس مذاکراتی عمل کی توثیق کی ہے جو اپوزیشن رہنما آنگ سان سوچی، صدر تھین سین، پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے اسپیکروں، فوج کے سربراہ جنرل مِن انگ ہلینگ کے علاوہ ایک اکثریتی نسل کی پارٹی کے ایک سینئر رکن کے درمیان جاری ہے۔ اِس کے علاوہ آنگ سان سوچی نے دستوری ترمیم کے سلسلے میں فوجی اراکینِ پارلیمنٹ کو قائل کرنے کے لیے اُنہیں ایک عشائیے کی دعوت دے رکھی ہے۔ دستور میں ترمیم کے لیے سوچی کی سیاسی جماعت نے پچاس لاکھ افراد کے دستخطوں سے پٹیشن تیار کر کے حکومت کو پیش کی ہے۔ دوسری جانب دستوری ترمیم کے مذاکرات اُسی وقت شروع ہو سکتے ہیں جب صدر تھین سین اور فوج کے سربراہ جنرل مِن انگ ہلینگ شریک ہونے کا فیصلہ کرتے ہیں۔

Myanmar Präsident Thein Sein Beratungen über Verfassungsänderung Runder Tisch
صدر تھین سین بھی سیاستدانوں کی ایک میٹنگ طلب کر چکے ہیںتصویر: picture-alliance/AP Photo/Khin Maung Win

فوج سے تعلق رکھنے والے اراکین پارلیمنٹ کو ڈنر جمعرات کے روز میانمار کے انتظامی دارالحکومت نیپیداو میں پلان کیا گیا ہے۔ میانمار کی پارلیمنٹ میں فوجی اراکین کا انتخاب رائے شماری سے نہیں بلکہ نامزدگی سے کیا جاتا ہے۔ پارلیمنٹ کی ایک چوتھائی نشستیں فوجی افسران کے لیے مخصوص ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق خاتون سیاستدان اِس رابطہ کاری سے طاقتور فوجی حلقے کے ساتھ روابط کو بہتر کرنے کی کوشش میں ہیں۔ سوچی اِس مذاکراتی عمل سے اُس دستوری رکاوٹ کو دور کرنا چاہتی ہیں جو اُن کے صدارتی الیکشن میں شرکت کی اہل ہونے کے راستے میں حائل ہے۔

سوچی کی سیاسی جماعت نیشنل لیگ برائے ڈیموکریسی پارٹی کے سینئر رہنما نیان وِن نے نیوز ایجنسی روئٹرز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اُن کی سیاسی جماعت کی فوجی اراکین پارلیمنٹ کے ساتھ یہ پہلی میٹنگ ہے۔ نیان وِن کے مطابق اِس میٹنگ میں سنجیدہ معاملات زیر بحث تو نہیں لائے جائیں گے لیکن یہ باہمی ہم آہنگی کی افزائش اور ماحول کو سازگار بنائے گی۔ یہ امر اہم ہے کہ میانمار میں سن 2011 سے سیاسی ہم آہنگی کی فضا کو موجودہ صدر نے بہتر بنانے کے عمل کو شروع کیا تھا۔

امن کی نوبل انعام یافتہ خاتون سیاستدان آنگ سان سوچی سابقہ فوجی جنرل اور موجودہ صدر تھین سین کی نیم سویلین حکومت کے اصلاحاتی عمل کی تائید کرتے ہوئے اس کی توثیق کر چکی ہیں۔ گزشتہ برس انہوں نے نیپیداو میں فوجی پریڈ کا بھی مظاہرہ دیکھا تھا۔ اس موقع پر اُن کے ہمراہ سابقہ حکومت کے اراکین بھی موجود تھے۔ اُسی سابقہ حکومت کے دور میں سوچی پندرہ برس تک مقید رکھی گئی تھیں۔ گزشتہ کچھ مہینوں سے سوچی موجودہ حکومت پر تنقید کا سلسلہ بھی جاری رکھے ہوئے ہیں کہ یہ عمل تعطلی کا شکار ہو کر رہ گیا ہے۔