1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

میانمار: سوچی کو چار برس کی سزائے قید سنا دی گئی

6 دسمبر 2021

میانمار کی ایک عدالت نے جمہوری رہنما آنگ سان سوچی کو چار برس کی سزائے قید سنا دی ہے۔ سوچی پر الزامات تھے کہ انہوں نے تشدد پر اکسایا اور کووڈ انیس قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کی۔

https://p.dw.com/p/43sZ1
Aung Suu Kyi plädiert für Myanmar im Friedenspalast
تصویر: Koen van Weel/picture alliance /ANP

میانمار میں یکم فروری کی فوجی بغاوت کے بعد آنگ سان سوچی کے خلاف یہ اولین عدالتی فیصلہ ہے۔ سوچی کی جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد انہیں اور ان کے دیگر سیاسی ساتھیوں کو گرفتار کر لیا گیا تھا، جس کے خلاف عوامی مظاہرے ابھی تک دیکھے جا سکتے ہیں۔

پیر کے دن فوجی جنتا کی حمایت یافتہ ایک عدالت نے سوچی کو چار سال کی سزائے قید سناتے ہوئے کہا کہ انہوں نے تشدد پر اکسایا اور کووڈ انیس کی روک تھام کیے لیے نافذ کیے گئے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کی۔ تاہم سیاسی مبصرین کے مطابق سوچی کو یہ سزا سیاسی بدلہ لینے کے لیے سنائی گئی ہے۔

سوچی کے علاوہ سابق صدر ون مینٹ کو بھی انہی الزامات کے تحت چار برس کی قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ مقامی میڈیا کے مطابق ان دونوں سیاسی رہنماؤں کو ابھی تک جیل منتقل نہیں کیا گیا ہے۔

میانمار کی فوجی حکومت کے ایک ترجمان نے میڈیا کو بتایا ہے کہ یہ دونوں سیاسی رہنما اس وقت جہاں موجود ہیں، وہاں سے ان کے خلاف دیگر الزامات کی کارروائی کی جائے گی۔

یہ عدالتی فیصلے گزشتہ ہفتے جمعرات کو سنائے جانا تھے لیکن انہیں موخر کر دیا گیا تھا۔ اس جنوب مشرقی ایشیائی ملک کی فوجی جنتا کو نہ صرف علاقائی بلکہ عالمی سطح پر بھی دباؤ کا سامنا ہے کہ وہ ملک میں جمہوری حکومت بحال کرتے ہوئے سوچی سمیت دیگر سیاسی رہنماؤں کو آزاد کر دے۔

نوبل امن انعام یافتہ لیڈر آنگ سان سوچی کو دیگر الزامات کا سامنا بھی ہے۔ اگر یہ ان پر یہ الزامات بھی ثابت ہو گئے تو خدشہ ہے کہ انہیں عمر قید کی سزا بھی سنائی جا سکتی ہے۔ ماضی میں بھی سوچی اسی فوجی اسٹبلشمنٹ کی وجہ سے اپنی زندگی کے پندرہ برس نظر بندی میں گزار چکی ہیں۔

سوچی کے خلاف الزامات ہیں کیا؟

میانمار میں رواں سال کے آغاز میں فوجی بغاوت کے کچھ دن بعد ہی سوچی پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ انہوں نے لائیسنس کے بغیر ہی واکی ٹالکیز اور سگنل جامرز رکھے ہوئے تھے۔ ان پر یہ الزام بھی عائد کیا گیا تھا کہ انہوں نے سن دو ہزار بیس کے الیکشن میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کی خاطر لاگو کیے گئے قواعد وضوابط کی خلاف ورزی کی تھی۔

اس کے کچھ عرصے بعد فوجی حکومت نے ان پر کچھ مزید الزمات بھی عائد کر دیے تھے۔ جن میں ایک الزام یہ بھی شامل تھا کہ سوچی نے نوآبادیاتی دور کےآفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کی۔

دیگر الزامات میں الیکٹورل فراڈ اور غیر قانونی اعمال کو بھی شامل کر لیا گیا جبکہ رشوت خوری کے الزامات بھی عائد کر دیے گئے۔ فوجی حکومت کا الزام ہے کہ سوچی نے چھ لاکھ ڈالرز کی کیش رقوم اور گیارہ اعشاریہ چار کلو گرام سونا غیر قانونی طور پر وصول کیا۔

فروری میں آنگ سان سوچی کی سیاسی جماعت لیگ فارڈیموکریسی (این ایل ڈی) نے مبینہ طور پر عالمی اداروں کو ایک خط ارسال کیا تھا، جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ میانمار کی فوجی حکومت کو تسلیم نہ کریں۔ اس پیش رفت کے بعد فوجی جنتا نے تشدد پر اکسانے کا الزام بھی عائد کر دیا تھا۔

میانمار می موجودہ صورتحال کیا ہے؟

میانمار میں جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد ہی فوج مخالف مظاہرے شروع ہو گئے تھے۔ تقریبا ایک سال کا عرصہ بیت جانے کے بعد بھی ایسے مظاہرے جاری ہیں تاہم فوجی کریک ڈاؤن کے باعث ان کی شدت میں کمی آ چکی ہے۔

اس سایسی بحران میں کچھ مسلح گروہوں نے اپنی کارروائیاں بھی شروع کر دی تھیں، جن کو کچلنے کی خاطر فوجی ایکشن جاری ہے۔ ایک مقامی مانیٹرنگ گروپ کے مطابق یکم فروری کے اوائل کے بعد سے اب تک مختلف پرتشدد واقعات کے نتیجے میں کم ازکم بارہ سو افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ فوجی حکومت لگ بھگ دس ہزار سے زائد  سیاسی منحرفین کو گرفتار کر چکی ہے۔

علاقائی اور عالمی برادری کا دباؤ ہے کہ میانمار کی فوجی حکومت ملکی اقتدار سول حکومت کو سونپے اور سیاسی قیدیوں کو رہا کر دیا جائے۔ تاہم ناقدین کے مطابق اگر ملکی فوج نے اس وقت عالمی دباؤ میں آ کر ایسا کیا تو اس کا ملک پر قبضہ ڈھیلا پڑ جائے گا، جو وہ نہیں چاہتی۔

ع ب، ص ز (خبر رساں ادارے)