1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مہنگائی کس طرح پاکستانی عوام کو متاثر کر رہی ہے؟

3 ستمبر 2022

پاکستانی حکومتی اعداد و شمار کے مطابق ملک میں مہنگائی کی شرح پچھلے پچاس سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔

https://p.dw.com/p/4GNkw
Pakistan Hyderabad Markt
تصویر: PPI/Zuma/picture alliance

پاکستانی حکومتی اعداد و شمار کے مطابق ملک میں مہنگائی کی شرح پچاس سال کی بلند ترین سطح یعنی 27.3 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ جس کا واضح مطلب ہے کہ کم آمدنی والے افراد کے ذرائع  آمدن نصف ہو گئے ہیں جبکہ غور طلب پہلو یہ ہے کہ تنخواہوں میں اضافہ نہ ہونے کے برابر ہے۔

پاکستان کے بڑھتے ہوئے قرضے، حالات کس قدر سنگین ہیں؟

پیٹرول اور بجلی کی قیمتیں: نئی پاکستانی حکومت کا سبسڈی کے خاتمے پر غور

کراچی کے علاقے نارتھ ناظم آباد میں رہائش پزیر متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے محمد نعمان نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک پرائیویٹ کمپنی مں کام کرتے ہیں ان کی تنخواہ 40 ہزار روپے ماہانہ ہے، جب کہ ان کی اہلیہ ایک اسکول میں بطور پرائمری ٹیچر کام کر تی ہیں۔ ان کی تنخواہ27ہزار روپے ہے۔ بچوں کی تعلیم کے ساتھ گھر کے اخراجات بڑی مشکل سے پورے ہوتے تھے مگر مہنگائی کا حالیہ طوفان ان پر قہر بن کر ٹوٹا ہے۔ کھانے پینے کی اشیاء جن پر کبھی 10ہزار روپے  خرچ ہوتا تھا یہ خرچ اب 20ہزار روپے تک پہنچ گیا ہے۔ آفس جانے کے اخراجات، بجلی گیس کے بل بھی 15ہزار سے بڑھ 22ہزار تک پہنچ گئے ہیں۔ ادویات، بچوں کے تعلیمی اخراجات ، روز بہ روز بڑھ رہے ہیں۔ مالک مکان نے کرایہ بڑھانے کا نوٹس دے رکھا ہے۔ ان اخراجات کو پورا کرنے کے لیے اب ان کی اہلیہ کچھ بچوں کو ٹیوشن پڑھا کر اضافی آمدنی کے لئے کوشش کر رہی ہیں۔ غریب اور متوسط طبقہ بری طرح مہنگائی سے متاثر ہو رہا ہے اور لوگ سمجھتے ہیں کہ حکومت اس صورتحال کی ذمہ دار ہے۔

Infografik Inflation AR
پاکستان میں مختلف شعبوں میں مہنگائی میں اضافے کا احوال

تنخواہ دار طبقے پر انکم ٹیکس کے اثرات

مقامی ٹی وی چینل ''دنیا‘‘  میں بزنس ایڈیٹر حارث ضمیر نے ڈی ڈبلیو گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ مہنگائی کے سامنے اتنے بے بس کبھی نہیں تھے جتنے کہ آج ہیں۔ انہوں بتایا کہ ان کی تنخواہ دو لاکھ پچاس ہزار روپے ہے۔ مگر یوٹیلٹی بلز اور اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ ہو رہا ہے، جسکی وجہ سے  سفید پوش طبقہ تیزی سے متاثر ہو رہا ہے۔  حارث ضمیر نے بتایا کہ ان کا بجلی کا بل 28ہزار سے 40 ہزار ہوگیا ہے، جبکہ  مہینے کا سوداسلف 52 ہزار روپے سے 62ہزار روپے پر پہنچ گیا ہے۔انہوں نے بتایا کہ حکومت وقت تنخواہ دار طبقے پر مزیدٹیکس لگا رہی ہے۔ آدھی سے زیادہ تنخواہ اشیا خورونوش اور گھر کے کرائے پر خرچ ہو جاتی ہے، جبکہ ادویات روزانہ کےاخراجات ہیں، تنخواہوں میں اضافے کے بجائے کٹوتی ہو رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مہنگائی کے سبب اب گھریلو بجٹ میں 50 فیصد اضافہ تو ہو گیا ہے مگر آمدنی وہی ہے۔

صارفین کے حقوق کا تحفظ کیسے ممکن ہے؟

صارفین کے حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی تنظیم کے چیئرمین کوکب اقبال نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی تنظیم مہنگائی اور حکومت کی طرف سے بجلی گیس اور دیگر اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافے پر ہمیشہ آواز بلند کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ قیمتوں کو کنٹرول کرنا کمشنر کراچی کی ذمہ داری ہے مگر وہ صرف پریس ریلیز اور اشیائے خورونوش کی قیمتوں کی لسٹ جاری  کر کے یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے عوام کو ریلیف دے دیا ہے، انہوں نے کہا کہ  مجسٹریٹ کے اختیارات کو بحال کیا جائے تاکہ ناجائز منافع خور  تاجروں کے گرد گھیرا تنگ کیا جاسکے۔

مہنگائی اور عوامی ردِعمل

روپے کی قدر میں گراوٹ اور مہنگائی پر جب عوامی ردعمل جانے کے لیے ڈی ڈبلیو کے نمائندے نے ایک بازار میں دکانداروں اور خریداروں سے گفتگو کی تو لوگ پھٹ پڑے۔ بیشتر نے کہا کہ حکومت اپنے اخراجات اور عیاشیاں ختم کرنے کے بجائے سارا بوجھ عوام پر منتقل کر رہی ہے۔ ایک دوکاندار جمیل احمد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہوزیر خزانہ مفتاح اسماعیل سری لنکا جیسی صورتحال کا بار بار حوالہ دیتے ہیں، انہوں نے کہا کہ سری لنکا کو بھی حکمرانوں نے برباد کیا اور پاکستان میں بھی معاشی بحران کا  بڑا سبب اس ملک کے سیاستدان ہیں۔

جمیلہ خاتون نامی ایک شہری نے کہا کہ آج 70 سال بعد بھی اس ملک میں کسی قدرتی آفت سے نمٹنے کا انتظام نہیں ہے، ''فقیروں کی طرح دنیا بھر سے سیلاب کے نام پر امداد مانگ رہے ہیں گندم بڑی مقدار میں گوادر میں موجود ہے مگر آٹے کی قیمت میں اضافہ کردیا گیا ہے۔‘‘