1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مہاجرين کے کام سے مطمئن ہيں، جرمن کمپنياں

عاصم سلیم
14 مارچ 2017

ايک تازہ سروے کے نتائج کے مطابق جرمنی ميں پناہ گزينوں کو ملازمت فراہم کرنے والی کمپنيوں کی بھاری اکثريت، ان مہاجرین کے کام سے مطمئن ہے۔گزشتہ ماہ کيے گئے اس سروےکے نتائج منگل چودہ مارچ کو جاری کيے گئے۔

https://p.dw.com/p/2Z9J3
Deutschland Flüchtlinge Fortbildung
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Killig

جرمنی ميں مہاجرين کو ملازمتيں فراہم کرنے والی کمپنيوں کے ايک جائزے ميں يہ بات سامنے آئی ہے کہ ان کمپنيوں کی بھاری اکثريت نے مہاجرين کے کام کاج کو اطمينان بخش قرار ديا۔ يہ سروے گزشتہ ماہ کيا گيا تھا اور اس کے نتائج منگل چودہ مارچ کو جاری کيے گئے۔ مطالعے ميں شامل پچھتر فيصد سے زائد کمپنيوں کا کہنا ہے کہ انہيں اپنے ہاں کام کرنے والے تارکين وطن و پناہ گزينوں کے کام ميں نہ ہونے کے برابر خامياں دیکھيں۔

سن 2015 اور سن 2016 کے درميان مشرق وسطیٰ، شمالی افريقہ اور چند ايشيائی ممالک سے قريب 1.2 ملين مہاجرين نے سياسی پناہ کے ليے جرمنی کا رخ کيا۔ تکنيکی تربيت کے حصول اور انضمام کے بعد ان مہاجرين کو آہستہ آہستہ اب جا کر روزگار کی منڈی ميں جگہ مل رہی ہے۔ کئی اندازوں کے مطابق ان ايک ملين سے زائد مہاجرين ميں سے چودہ فيصد اب باقاعدہ ملازمتيں کر رہے ہيں۔

سروے ميں شامل کچھ کمپنيوں نے چند مسائل کی بھی نشاندہی کی۔ انہيں مہاجرين کی جرمن زبان بولنے اور سمجھنے کی محدود صلاحيت، کام کرنے کے مختلف طريقہ ہائے کار، مختلف قابليت اور تارکين وطن يا ملازمين کی جرمنی ميں رہائش کی محدود مدت جيسے مسائل کا سامنا رہتا ہے۔

يہ سروے آرگنائزيشن فار اکنامک کوآپريشن اينڈ ڈویلپمنٹ (OECD)، ايسوسی ايشن آف جرمن چيمبرز آف کامرس اينڈ انڈسٹری اور جرمن وزارت برائے محنت و سماجی امور نے مشترکہ طور پر کرايا۔

مطالعے ميں بائيس سو کے لگ بھگ کمپنيوں سے سوالات کيے گئے۔ يورپی تنظيم برائے اقتصادی ترقی و تعاون نے جرمن کمپنيوں پر زور ديا ہے کہ مہاجرين کو ملازمتيں فراہم کرنے کے کسی طويل المدتی منصوبے کام کيا جانا چاہيے۔

پاکستانی تارک وطن نوجوان کی ڈوئچے بان میں تربیت

يہاں يہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جرمن شہريوں کی اوسط عمر ميں اضافے کا عمل مسلسل جاری ہے اور اقتصادی سطح پر اس پيش رفت کو منفی طور پر ديکھا جاتا ہے۔ اسی سبب روز گار کی منڈی ميں داخل ہونے والے جرمن شہريوں کی تعداد ميں مقابلتاً کمی رونما ہو رہی ہے۔

مجموعی طور پر ديکھا جائے تو اس وقت جرمنی ميں بے روزگاری کی شرح 5.9 فيصد ہے۔ يہ سن 1990 ميں مغربی و مشرقی جرمنی کے اتحاد کے بعد سے اب تک کی نچلی ترين سطح ہے اور (OECD) کے رکن ملکوں ميں اس سے کم بے روزگاری کہيں نہيں۔ ايسی صورت حال ميں جرمنی کو روز گار کی منڈی ميں قدم رکھنے والے نئے ملازمين کے ليے سب سے بہترين ملکوں ميں سے ايک قرار دينا غلط نہ ہو گا۔

انضمام، ملازمت اور تعليم کے ليے جرمن کمپنياں کس طرح مدد کر رہی ہيں؟

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید