1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مڈل آرڈر پر شکوک و شبہات بڑھ گئے

عاصمہ کنڈی
31 جنوری 2019

پاکستانی کرکٹ ٹیم نے جنوبی افریقہ میں اس امر سے بھی خود کو ماورا ثابت کر دیا کہ کسی کام کا آغاز ہی اس کا سب سے مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ ڈی ڈبلیو کے سپورٹس رپورٹر طارق سعید اس ناکامی کی وجہ ’ناقص مڈل آرڈر‘ کو قرار دیتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/3CTs8
Cricket First Twenty 20 Sri Lanka vs Pakistan
تصویر: Reuters/D. Liyanawatte

پورٹ ایلزبتھ کے جنگلوں میں ون ڈے سیریز کی ابتدا کی طرح کیپ ٹاون کے کوہساروں میں بھی پہلے 25 اوورز تک مہمانوں کا بول بالا تھا لیکن مقابلے کے فیصلہ کن موڑ پر پاکستانی مڈل آرڈر بیٹنگ کی کمان ٹوٹ گئی اور کرکٹ کے اس ہنگامے کا آغاز نہ سہی انجام تو ٹیسٹ سیریز کی طرح رسوائی  پر ہی ہوا۔

نیولینڈ کی تاریخ میں کوئی ٹیم ایک روزہ میچوں میں دوسری بیٹنگ کرتے ہوئے آج تک 257 سے زیادہ ہدف سر نہیں کرسکی۔ اس صورت میں جنوبی افریقی کپتان فاف ڈوپلیسی کی جانب سے پہلے بیٹنگ کی دعوت ملنا پاکستانیوں کے لیےغنیمت تھا لیکن کہتے ہیں کہ جنگوں کا فیصلہ پہلے ذہنوں میں ہوتا ہے۔

میچ کے بعد قائم مقام کپتان شعیب ملک نے بین السطور اس ناکامی کا ملبہ ٹاپ آرڈر بیٹنگ کے سر تھوپنے کی کوشش کی۔ یہ سچ ہے کہ بدھ کو فخر زمان سنچری بنا سکتے تھے لیکن کسی کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ فخر، امام اور بابر پر مشتمل یہ پاکستان کا ٹاپ آڑدر ہی تھا جس نے پہلے چاروں میچوں میں غیرمعمولی کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔

امام الحق نے سینچورین میں سنچری کے دونوں طرف پورٹ ایلزبتھ اور جوہانسبرگ میں نصف سنچریاں بنا کر جنوبی افریقہ میں پاکستان کا 271 کا نیا ریکارڈ قائم کیا۔ طعنوں کے موسم میں وہ مین آف دی سیریز قرار پائے اور بابر اعظم 195 رنز کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہے۔

اس پانچ ایک روزہ میچوں کی سیریز میں دراصل پاکستان کی مڈل آڑدر بیٹنگ نے ناقص کارکردگی دکھائی، جس میں خود شعیب ملک بھی شامل تھے۔ ایسے بڑے دن ٹیم کے کسی سینئر کھلاڑی کو ہاتھ کھڑا کرنا ہوتا ہے لیکن پچھلے کئی برسوں کی طرح بدھ کو بھی ایسا نہ ہوسکا۔

گزشتہ چھ برس میں ٹیم پاکستان اپنے سے بہتر مخالف سے کوئی ون ڈے سیریز نہیں جیت سکی۔ حالیہ برسوں میں اسے انگلینڈ اور آسٹریلیا میں 1-4 اور نیوزی لینڈ میں 0-5 سے شکست ہوئی۔ ان تمام مواقع پرشعیب ملک اور پاکستان کا مڈل آرڈر ناکام ہوا۔ موجودہ سیریز میں بھی ملک 23 کی معمولی اوسط سے 95 رنز بنا سکے۔ یہ دورہ پاکستان کی عالمی کپ تیاریوں کا حصہ تھا لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ میگا ایونٹ میں کپتانی کی دوڑ میں شامل دونوں کھلاڑی شعیب ملک اور سرفراز احمد کی ٹیم میں جگہ پرسوالیہ نشان ہے۔ دونوں کی بیٹنگ کارکردگی انتہائی غیرتسلی بخش ہے۔

جنوبی افریقہ نے ورلڈ کپ کے پیش نظراس سیریز میں سکواڈ میں شامل تمام 17 کھلاڑیوں کو آزمایا لیکن پاکستان نے شان مسعود کی فارم سے فائدہ نہیں اٹھایا۔ ان کے ڈومیسٹک ون ڈے ریکارڈ میں 56 کی اوسط دنیا میں مائیکل بیون کے بعد سب سے زیادہ ہے۔ شان کو مڈل آرڈر میں چوتھے نمبر پر کھلانے میں مضائقہ نہ تھا۔ خاص طور پر جب محمد حفیظ کی عمر 38 برس ہو چکی ہے اور ان میں دیر تک بیٹنگ کرنے کی اب تاب دکھائی نہیں دیتی۔

نمبر چار پر کھیلتے ہوئے محمد حفیظ کا ریکارڈ ٹیم انتظامیہ کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔ جب ان کی باری 20ویں اوور سے پہلے آتی ہے تو وہ 20 کی معمولی اوسط اور اس سے بھی معمولی 67 کے اسٹرائک ریٹ کے ساتھ صرف 414 رنز بنا سکے ہیں لیکن یہی محمد حفیظ کو جب کم اوورز کھیلنے کو ملتے ہیں تو ان کی اوسط بڑھ کر 76 اور اسٹرائک ریٹ 103 ہو جاتا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا ورلڈ کپ میں بہترین استعمال ایک فنشر کے طور پر نمبر پانچ یا چھ پر ہی ہو سکتا ہے۔

سیاحوں کی طرح کیپ ٹاون کو فاسٹ باؤلرز کی بھی جنت سمجھا جاتا ہے۔ اسی مناسبت سے جنوبی افریقہ نے پانچ سیمرز کے ساتھ پاکستان پر حملہ کیا لیکن پاکستانی تھنک ٹینک نے یہاں بھی فہم یا عقل کو برائے کار لانے کی بجائے خود کو لکیر کا فقیر ثابت کیا اور دو اسپنرز کھلائے۔ اسپن کے 18 اوورزمیں شاداب، عماد اور محمد حفیط کی ایک گیند بھی ٹرن نہ ہوئی اور وہ مجموعی طور پر 123 رنز دے بیٹھے۔

اس دورے میں شاہین شاہ کی غیرمعمولی 'نیو بال' فاسٹ بولنگ اوران کا محمد عامر کی جگہ ٹیم کا اٹیک لیڈر بننا سب سے خوش آئند بات رہی لیکن خود عامر سوئنگ کے بعد رفتار سے عاری نظرآئے۔ ورلڈ کپ سے پہلے یہ پاکستان کے لیے ایک بڑا درد سر بنتا جا رہا ہے۔

جنوبی افریقہ پاکستانی ہیڈ کوچ مکی آرتھر کا آبائی وطن ہے اور وہ وہاں کی پِچوں اور حالات سے اچھی طرح باخبر ہیں لیکن پھر بھی اس دورے پر ٹیم سلیکشن میں فاش غلطیاں کس جانب اشارہ کرتی ہیں؟ تین برس پہلے سبکدوش ہونے والے کوچ وقار یونس نے کشتیاں جلا کر پاکستان کرکٹ بورڈ کو جو ہوش ربا رپورٹ پیش کی تھی اس میں اسے کرکٹ ٹیم کے معاملات چلانے کے لیے انگلینڈ کی طرز پر کرکٹ ڈائریکٹر کی تقرری پر زور دیا گیا تھا۔ اگروہ بات مان لی جاتی تو آج مصباح الحق جیسا کوئی ماضی کا نامور کرکٹر اس عہدے پر فائز ہوتا اور ہیڈ کوچ اور سلیکشن کمیٹی دونوں اس کے سامنے اپنی غلطیوں پر جواب دہ ہوتے۔

Asma Kundi
عاصمہ کنڈی اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی عاصمہ کنڈی نے ابلاغیات کی تعلیم حاصل کر رکھی ہے۔
اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید