ميانمار کے ميڈيا، آزادی اور بندشيں
17 فروری 2012ميانمار کے ميڈيا کو اب پہلے سے کہيں زيادہ آزادی حاصل ہے۔ ليکن سرکاری سنسرشپ نرم ہو جانے کے باوجود اُس کی گرفت اب بھی موجود ہے۔ ہفت روزہ جریدے Seven Days News کے مدير اعلٰی Ahr Mahn کو حال ہی ميں اس کا تجربہ ہوا۔
انہوں نے سنسر آفس ميں اپنی طلبی کے بعد بتايا: ’انہوں نے مجھ سے کہا ہے کہ ميں سخت الفاظ ميں خبريں نہ دوں۔ ميں نے اپنے ايک مضمون ميں بہت سے لوگوں کی اس تشويش کا ذکر کيا تھا کہ اونگ سان سُوچی کو اُن کی انتخابی مہم کے دوران کوئی نقصان پہنچايا جا سکتا ہے‘
اس رپورٹ کو حکومت نے کچھ زيادہ ہی تنقيدی سمجھا تھا۔ سیون ڈے نیوز کے نوجوان مدير اعلٰی کا کہنا ہے کہ اب اونگ سان سوچی کے بارے ميں رپورٹيں شائع کرنا کوئی مسئلہ نہيں رہا۔ اس دوران ميانمار کا کوئی بھی آزاد اخبار اونگ سان سوچی کی تصوير سرورق پر شائع کرنے سے گريز نہيں کرتا۔
آہر ماہن کہتے ہیں، ’پچھلے سال اگست ميں صدر تھئين سين اور اونگ سان سوچی کی ملاقات کے بعد سے اس اپوزيشن ليڈر کی تصاوير شائع کرنے کی اجازت ہے۔ اس سے پہلے سرورق پر ان کی تصاویر شائع کرنا سختی سے منع تھا اور اندر کے صفحات پر اُن کی اشاعت کی بھی کبھی کبھار ہی اجازت دی جاتی تھی‘۔
آہر ماہن کے مطابق اُن کے جریدے کی تعداد اشاعت بھی مسلسل بڑھتی جا رہی ہے کيونکہ خبريں اچانک اہم ہو گئی ہيں اور اس لیے بھی کہ اب صحافی جو کچھ لکھتے ہیں، لوگ اُس پر اعتبار کرتے ہيں۔ پہلے اخباروں ميں شائع ہونے والی خبريں کم از کم ايک ہفتہ پرانی ہوتی تھيں کيونکہ سنسر کے عمل سے گزرنے ميں ايک ہفتہ تو لگ ہی جاتا تھا۔#bز
تاہم اب بھی اُن مذاکرات کے بارے ميں خبريں شائع کرنا منع ہے جو حکومت ملک کی بہت سی قومی اقليتوں سے کر رہی ہے۔ يہ مذاکرات اس وقت بہت سست رفتار ہیں۔ اس لیے مختلف نسلی اقلیتی گروپوں کے جاری کردہ بیانات شائع نہیں کیے جا سکتے۔
اس کے باوجود میانمار میں زیادہ تر صحافتی حلقے اس بات پر قدرے مطمئن اور مستقبل کے حوالے سے پر امید ہیں کہ آج اس ملک میں میڈیا کی آزادی کی صورت حال ماضی کے مقابلے میں کہیں بہتر ہے۔
رپورٹ: اُوڈو شمِٹ، سنگاپور / شہاب احمد صدیقی
ادارت: مقبول ملک