1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
فن تعمیرپاکستان

موہٹہ پیلس کی کہانی اور ہماری نادانی

19 اکتوبر 2021

تقسیمِ ہند کے بعد عمارتوں، سڑکوں اور شہروں کے نام تبدیل کرنے کی ہماری روایت اتنی پختہ اور پرانی ہو چکی ہے کہ اب اس پر بات کرنا بھی فضول سا لگتا ہے۔

https://p.dw.com/p/41qal
DW-Urdu Blogerin Saba Hussain
تصویر: Privat

لائل پور کو فیصل آبا، کیمبل پور کو اٹک، کراچی میں ایلفنسٹن اسٹریٹ کا نام زیب النساء اسٹریٹ، رام باغ کو آرام باغ اور سیتا روڈ کو رحمانی نگر کر دیا گیا۔ اب نو اکتوبر کو سندھ ہائی کورٹ کا حکم جاری ہوا کہ موہٹہ یا مہتا پیلس کو مستقل طور پر قصر فاطمہ لکھا اور پکارا جائے۔ تب تو دل مزید افسردہ ہو جاتا ہے، جب پتا چلتا ہے کہ ایک میوزیم، جوکہ ادب، میوزک اور آرٹ کا وسیلہ ہے، اسے ایک میڈیکل کالج میں دفنا دیا جائے گا۔ سندھ ہائی کورٹ نے حکم دیا ہے کہ اس عمارت کو لڑکیوں کے لیے میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج قائم کرنے کے لیے استعمال کیا جائے۔

موہٹہ پیلس بھی تاج محل کی طرح بیوی کی محبت میں بنا تھا۔ فرق صرف یہ ہے کہ تاج محل بیوی کی موت کے بعد بنا تھا اور موہٹہ زندگی میں ہی بن گیا تھا۔ کہانی کچھ یوں ہے کہ ہماری تاریخ میں رائے بہادر شیورتن نامی ایک امیر کبیر کاروباری شخص گزرا ہے۔ ان کا خاندان کلکتہ سے نقل مکانی کر کے کراچی آیا تھا۔ کراچی میں رائے بہادر کی بیوی بیمار ہوئیں تو ڈاکٹروں نے کہا کہ سمندر کی ہوا میں اس کے لیے شفا ہے۔ رائے بہادر شیورتن موہٹہ نے کراچی کے پانیوں کے بالکل ساتھ بیوی کے لیے ایک مقام تعمیر کیا، جو موہٹہ پیلس بن گیا۔ اب موہٹہ پیلس اور پانیوں کے بیچ ہزاروں مکان اور عمارتیں آ گئی ہیں مگر تب یہ پانیوں کے بالکل سامنے تھا، سمندر کی ہوا براہ راست اس محل پر پڑتی تھی۔

موہٹہ یا مہتا خاندان کے کراچی میں کئی اور بھی گھر تھے۔ موہٹہ پیلس کی تعمیر 1927ء میں شروع ہوئی اور ان کی بیوی کی صحت یابی پر اس محل میں جشن بھی منایا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ محل شیورتن موہٹہ کی پسندیدہ رہائش گاہ تھی۔ محل کی تعمیر کے 14 سال بعد ہندوستان کا بٹوارہ ہوا اور کراچی کو پاکستان کا دارالحکومت بنا لیا گیا، فیصلہ یہ ٹھہرا کہ جن کے پاس ایک سے زائد گھر ہیں، ان کا ایک گھر حکومت اپنے قبضے میں لے لے گی اور یوں شیورتن موہٹہ کا گھر وزارت خارجہ کا دفتر بنا دیا گیا۔ موہٹہ خاندان نے ہمیشہ کے لیے یہ مقام چھوڑ دیا اور سرحد کی دوسری طرف چلا  گیا۔

 ڈیڑھ سال بعد دارالحکومت تبدیل کر کے راولپنڈی منتقل کر دیا گیا اور موہٹہ پیلس فاطمہ جناح کو ان کی بمبئی والی رہائش گاہ کے بدلے میں دے دیا گیا۔ فاطمہ جناح کی نسبت سے اس محل کو بہت وقت سے حکومتی کاغذات پر 'قصر فاطمہ‘  لکھا جاتا رہا ہے، مطلب کہ یہ کوئی آج کی بات نہیں ہے۔

Mohatta Palace Karachi
تاج محل بیوی کی موت کے بعد بنا تھا اور موہٹہ زندگی میں ہی بن گیا تھاتصویر: ANN/Dawn/picture alliance

فاطمہ جناح کے انتقال کے بعد ان کی بہن شیریں جناح نے اپنے انتقال تک یہاں قیام فرمایا۔ پھر ورثاء کی بھیڑ بھاڑ کی وجہ سے عمارت کو بند کر دیا گیا۔ ایک دہائی تک یہ خوبصورت محل اندھیر نگری بنا رہا۔ سن 1990ء میں بے نظیر بھٹو کی حکومت میں سندھ حکومت کی درخواست پر موہٹہ پیلس خریدنے اور اسے بحال کرنے کے لیے محکمہ ثقافت کو فنڈز فراہم کیے گئے اور یوں اس محل کو میوزیم میں تبدیل کر دیا گیا اور معاملات کی دیکھ بھال کے لیے ایک آزاد بورڈ آف ٹرسٹیز قائم کیا گیا۔

یہ ساری کہانی سنانے کا مقصد یہ تھا کہ یہ سن کر میری طرح کیا آپ کے ذہن میں بھی یہ سوال آتا ہے کہ موہٹہ پیلس اگر سندھ حکومت کی پراپرٹی ہے تو محکمہ ثقافت کو نظرانداز کر کے کوئی فیصلہ کیسے سنایا جا سکتا ہے؟ اگر یہ آئینی اور قانونی معاملہ نہیں ہے تو پھر سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ سنانا کافی عجیب سی بات ہے۔ ورثہ کسی دھرتی کی پہچان اور تاریخ کا ایک حوالہ ہوتا ہے۔ ورثے اور تاریخ کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ کسی بھی ورثے کو مذہب کی وجہ سے بانٹنا اور اسے مسترد کرنے کو کسی مہذب دنیا میں کبھی اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔

میڈیکل کالجز بنانے کے لیے پہلے ہی بہت مقامات ہیں اور فاطمہ جناح کے نام سے منسوب تعلیمی اداروں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ یہ نیک کام کرنے کے اگر دوسرے بہت سے طریقے موجود ہیں تو کیا ضرورت ہے کہ وہ کام تاریخی طور پر خود کو 'غیر مہذب‘ ثابت کر کے کیا جائے؟

DW Urdu Korrespondentin Saba Hussain
صبا حسین نوشہرو فیروز، سندھ سے ایک فری لانس بلاگر ہیں۔sabahussain26