1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مورگن چوانگرائی، جس نے مگابے کو خوفزدہ کر دیا تھا

15 فروری 2018

زمبابوے کے اپوزیشن رہنما مورگن چوانگرائی پینسٹھ برس کی عمر میں انتقال کر گئے ہیں۔ ان کی سیاسی پارٹی نے بتایا ہے کہ وہ جوہانبسرگ کے ایک ہسپتال میں آنتوں کے کینسر کا علاج کرا رہے تھے۔

https://p.dw.com/p/2sixs
Zimbabwe Oppositionsführer Morgan Tsvangirai
تصویر: picture-alliance/AP Photo/T. Mukwazhi

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے زمبابوے کی اپوزیشن پارٹی ’تحریک برائے جموری تبدیلی‘ (ایم ڈی سی) کے حوالے سے بتایا ہے کہ پینسٹھ سالہ مورگن چوانگرائی بدھ کی رات جنوبی افریقہ کے ایک ہسپتال میں وفات پا گئے۔ وہ وہاں آنتوں کے سرطان کا علاج کرا رہے تھے۔

89 سالہ رابرٹ موگابے کا ساتواں دور صدارت

زمبابوے: چنگرائی وزیر اعظم بن گئے

صدارتی انتخاب میں کامیابی کا دعوی

سابق وزیر اعظم چوانگرائی نے سن انیس سو ننانوے میں اپنی سیاسی جماعت ’تحریک برائے جموری تبدیلی‘ کی بنیاد رکھی تھی۔ ان کا سیاسی کیریئر سابق صدر رابرٹ موگابے کے خلاف سیاسی جدوجہد میں گزرا تھا۔ ان کے انتقال کو زمبابوے کی سیاست کے لیے ایک بڑا نقصان قرار دیا جا رہا ہے۔

سابق صدر رابرٹ مگابے کے دور میں چونگرائی کو حکومت پر کڑی تنقید کرنے پر کئی مرتبہ حراست میں لیا گیا۔ اسی کی دہائی میں بطور یونین لیڈر چوانگرائی نے مگابے کی مطلق العنان حکومت کے خلاف ایک سخت مزاحمت شروع کی تھی۔

سن 1989 میں انہوں نے اس افریقی ملک میں سیاسی سطح پر تحریک چلانا شروع کی، جس کے دس برس بعد انہوں نے باقاعدہ طور پر ایک سیاسی پارٹی کی بنیاد رکھی۔ اس وقت میں موگابے کی حکومت کے لیے ایک بڑا خطرہ بن چکے تھے۔

مارچ سن دو ہزار سترہ میں جب چونگرائی اور دیگر اپوزیشن رہنماؤں نے ہرارے میں ایک حکومت مخالف مظاہرے کا انعقاد کیا تو پولیس نے انہیں شدید تشدد کا نشانہ بھی بنایا۔ اسی سال منعقد ہوئے صدارتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں انہوں نے موگابے پر برتری حاصل کر لی تھی۔

تاہم اس کے بعد شروع ہونے والے تشدد کے باعث چوانگرائی کو صدارتی انتخابات کے دوسرے مرحلے سے دستبردار ہونا پڑ گیا تھا۔ اس وقت پرتشدد واقعات کے نتیجے میں دو سو افراد کے ہلاک ہونے کا دعویٰ بھی کیا گیا تھا۔

اسی متنازعہ الیکشن کے بعد چوانگرائی نے موگابے کی زانو پی ایف پارٹی کے ساتھ مل کر متحدہ حکومت بنائی اور تب انہیں ملک کا وزیر اعظم بنا دیا گیا تھا۔ چونگرائی کا کہنا تھا کہ ان پر کئی قاتلانہ حملے بھی کیے گئے۔ ان میں وہ واقعہ بھی شامل ہے، جس میں سن انیس سو ستانوے میں کچھ لوگوں نے چوانگرائی کو ان کی دفتر کی عمارت کی کھڑکی سے باہر پھینکنے کی کوشش کی تھی۔

مورگن چونگرائی کا انتقال ایک ایسے وقت پر ہوا ہے، جب زمبابوے میں کچھ ماہ بعد ہی صدارتی انتخابات ہونے والے ہیں۔ سیاسی ناقدین کے مطابق اس مخصوص وقت پر چوانگرائی کے انتقال کی وجہ سے ان کی پارٹی میں پھوٹ پڑ سکتی ہے۔ گزشتہ ہفتے ہی ایم ڈی سی کے دو سنیئر ممبران کے مابین کھلے عام ہونے والی ایک زبانی جھڑپ بھی عام ہوئی تھی، جس میں دونوں خود کو پارٹی کا نیا رہنما بنانے پر بحث کر رہے تھے۔

ہرارے میں مقیم سیاسی امور کے ماہر الیگزنڈر روسیرو نے چوانگرائی کے انتقال کو زمبابوے کی سیاست کے لیے ایک بڑا دھچکا قرار دیا ہے۔ انہوں نے اے ایف پی سے گفتگو میں کہا کہ زمبابوے میں موگابے کی آمرانہ حکومت کے خلاف چوانگرائی کی جدوجہد ہمیشہ یاد رہے گی، ’’موگابے کی آمریت کا اثر زائل کرنے میں چوانگرائی کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ وہ حزب اختلاف کی سیاست میں ایک گاڈ فادر تھے، جنہوں نے مگابے کی ڈکٹیٹر شپ کو خوف میں مبتلا کر دیا تھا۔‘‘