1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ملک بدری کے ليے شناختی دستاويز پيش نہ کرنے پر سزا

عاصم سلیم Peter Hille
2 اپریل 2018

پچھلے سال صرف جرمنی ميں پينسٹھ ہزار افراد کو اس ليے ملک بدر نہ کيا جا سکا کيونکہ ان کی پاس شناختی دستاويزات نہيں تھے تاہم نئے قوانين کے مطابق دستاويزات کے حصول ميں عدم تعاون کی صورت ميں پناہ گزينوں کو سزا کا سامنا ہو گا۔

https://p.dw.com/p/2vMim
Bundesamt für  Migration Gelände Flüchtlinge
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Karmann

جرمنی ميں مقيم جان او نامی نائجيريا کے ايک تارک وطن کو سن 2014 ميں خط موصول ہوا کہ ان کی پناہ کی درخواست مسترد ہو گئی ہے۔ اس وقت جان او جرمنی ميں تين سال گزار چکے تھے۔ اس پيش رفت کے بعد اميگريشن حکام ان کو ملک بدر کرنا چاہتے تھے تاہم شناختی دستاويزات کی عدم موجودگی اس عمل ميں رکاوٹ ثابت ہوئی۔ جان او کا کہنا ہے کہ ان کا پاسپورٹ چوری ہو چکا تھا۔ شناختی دستاويزات کی عدم موجودگی کی صورت ميں کسی بھی ناکام درخواست گزار کو اس کے ملک واپس روانہ کرنا نا ممکن ہے۔

جان او کے وکيل لوتھر پينزر نے ڈوئچے ويلے کو بتايا کہ جان کی جرمنی ميں قيام کی اجازت ميں ہر ماہ ايک مہينے کی توسيع کی جاتی ہے۔ جان کو ہر ماہ اميگريشن حکام کے دفتر جانا پڑتا ہے اور اپنے اجازت نامے ميں توسيع کرانی پڑتی ہے۔ ليکن پناہ کی درخواست نا منظور ہوجانے کے باوجود، کسی نہ کسی طرح جرمنی ميں قيام کرنے والوں ميں جان او تنہا نہيں۔ اس وقت بھی ہزاروں تارکين وطن ايسے ہيں، جو شناختی دستاويز کی عدم موجودگی، طبی بنيادوں يا پھر ديگر وجوہات کی بنا پر ملک بدری سے بچے ہوئے ہیں۔

جرمن وزارت داخلہ کے مطابق پچھلے سال پينسٹھ ہزار ناکام درخواست گزاروں کو قيام کی عارضی اجازت صرف اس ليے دی گئی کيوں کہ انہيں ملک بدر کرنے کے ليے لازمی شناختی دستاويزات دستياب نہيں تھے۔ اس سے پچھلے سال يعنی سن 2016 ميں يہ تعداد اس کے نصف سے بھی کم تھی۔ جرمن پوليس يونين کے چيئرمين ارنسٹ والتھر کا کہنا ہے کہ اس تعداد ميں اضافہ سن 2015  اور سن 2016 ميں بڑی تعداد ميں مہاجرين کی آمد سے جڑا ہے۔ جرمنی ميں ملک بدری کی ذمہ داری وفاقی جرمن پوليس کے سپرد ہے۔ والتھر نے ڈی ڈبليو کو بتايا، ’’اس کا تعلق اس امر سے بھی ہے کہ ملک بدری سے بچنے کے ليے متعدد افراد اپنی شناخت چھپانے لگے ہيں۔

جرمن پوليس يونين کے چيئرمين نے مزید بتايا کہ مہاجرين کی شناخت کے تعين کے ليے ان کے ليے متبادل پاسپورٹس کا حصول ناگزير ہے۔ والتھر کے بقول اس ضمن ميں حکام مختلف ممالک کے حکام کے ساتھ رابطے ميں رہتے ہيں ليکن يہ عمل پيچيدہ ہوتا ہے اور اس ميں وقت بھی کافی لگ جاتا ہے۔ وزارت داخلہ کی ايک اندرونی رپورٹ کے مطابق متعلقہ بھارتی اداروں سے متبادل پاسپورٹ کے حصول کا عمل انتہائی مشکل اور نہ ہونے کے برابر ہے، پاکستان سے اس ميں تاخير لگتی ہے اور لبنان سے متبادل پاسپورٹ ساز و نادر ہی ملتے ہيں۔

اس صورتحال کو تبديل کرنے کے ليے ان دنوں وزارت داخلہ تارکين وطن کے آبائی ممالک پر زور ڈال رہی ہے۔ اس سلسلے ميں تعاون نہ کرنے والے ممالک کی ترقياتی امداد ميں کٹوتی بھی چند حلقوں ميں زير غور ہے۔ تاہم قوی امکانات يہ ہيں کہ جرمن وزارت برائے اقتصادی تعاون و ترقی مالی معاونت کا راستہ اختيار کرے گی۔ جرمن وزير برائے اقتصادی تعاون و ترقی گيئرڈ مولر نے اعلان کيا ہے کہ عراق، نائجيريا، افغانستان اور پاکستان جيسے ملکوں ميں ملک بدر کيے گئے نوجوانوں کو روزگار کے مواقع فراہم کرنے اور ان کی ٹريننگ پر سالانہ پانچ سو ملين يورو خرچ کيے جائيں گے۔

’تربیت اور کام دو، ملک بدر نہ کرو‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید