1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’معذور ہیں، مجبور نہیں‘

21 اپریل 2010

جمہوریہ کانگو کے نوجوان روجر جسمانی معذوری کے باوجود بھی حالات کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ گھر بدر کرنے کے بعد انہوں نے۔ موسیقی کی دنیا سے اپنا رابطہ جوڑ لیا ہے۔

https://p.dw.com/p/N0cv
تصویر: picture-alliance / dpa

جسمانی معزوری کے ساتھ زندگی گزارنا ایک چیلنج سےکم نہیں ہے اور اگر بات کسی ترقی پذیر ملک کی کی جائے تو یہ مزید سخت چیلنج بن جاتا ہے۔ کچھ اسی طرح کی صورتحال افریقی ملک جمہوریہ کانگوکی بھی ہے۔ وہاں ان افراد کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جو معذور نہیں ہیں۔ لیکن کچھ لوگ ایسے ہیں جو اس صورتحال کا بھی ڈٹ کا مقابلہ کررہے ہیں، جسا کہ نوجوان روجر Landu۔

وہ ایک موسیقار و گلوکار ہیں۔ پولیوکی وجہ سے بچپن میں ہی ان کے گھر والوں نے انہیں الگ کر دیا تھا۔ لیکن اس کے باوجود بھی انہیں نے شکست نہیں مانی اور موسیقی کی دنیا سے اپنا رابطہ جوڑ لیا۔ کانگو میں آجکل روجر کا بینڈ ہے اور موسیقی انہیں زندگی کی امید دیتی ہے۔

Karte Kongo mit Bunia Deutsch
کانگو جیسے پسماندہ ملک میں معذوروں کی حالت اور بھی ابتر ہےتصویر: APTN

روجر کے میوزک بینڈ کا نام ہے Staff Benda Bilili۔ اس گروپ میں بارہ نوجوان ہیں اور ان میں زیادہ تریا تو بیساکھیوں کے سہارے چلتے ہیں یا پھر وہیل چیئر پر ریہرسل کرنے آتے ہیں۔ روجر اس گروپ کے کم عمر ترین رکن ہیں۔ اٹھارہ سالہ روجر کی وہیل چیئر سبز رنگ کی ہے، جس کے پیچھے دو چمکتی ہوئی آنکھیں بنی ہوئی ہیں۔ بارہ سال کی عمر میں اس کے والدین نے اسےگھر سے نکال دیا تھا۔ طویل عرصے تک دارالحکومت کِنشاسا کی سڑکوں پر ٹھوکریں کھانے کے بعد روجو نے اس بینڈ میں شمولیت اختیار کی۔

روجر اپنے روز مرہ کے معمول کے بارے میں بتاتے ہیں کہ انہیں رات بھر گھر سے باہر رات گزارنی پڑتی تھی۔ دن کے وقت وہ سڑک ماؤتھ آرگن بجا کر کچھ پیسے کماتے تھے۔ لیکن ان مشکلات کے باجود بھی کبھی انہیںنے چوری نہیں کی۔

وہ ہمیشہ سے ہی کانگو کے بڑے موسیقاروں سے متاثر تھے اور ان کے جیسا میوزک بجانا چاہتا تھے۔

میوزک بینڈ Staff Benda Bilili میں شامل تمام آلات موسیقی کانگو کے روایتی ساز ہیں۔ اور موسیقاروں نے انہیں خود بنایا ہے۔ اپنے گٹار کے بارے یں بتاتے ہوئے انہوں کہ یہ ایک طرح کا سولو گٹار ہے۔ اسے ’سنٹوگے‘ کہا جاتا ہے۔ انہوں نے یہ ایک ٹین کے ڈبے، لکڑی کے ایک ٹکڑے اور ایک تار کی مدد سے تیار کیا ہے۔جیسا کہ اک تارا ہوتا ہے۔

روجر نے نو سال کی عمر سے ’سنٹوگے‘ بجانا شروع کیا تھا۔ ان کے والدین اس کے خلاف تھے۔ بہرحال انہوں نے اپنے والدین کی خواہش کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے شوق کو جاری رکھا۔

بیلجیئم سے تعلق رکھنے والے موسیقار ’ ونسنٹ کےنس‘ نےStaff Benda Bilili کےگیتوں سے متاثر ہوکر ان کے پہلے البم کی تیاری میں اہم کردار ادا کیا۔ ونسنٹ بتاتے ہیں کہ اس گروپ کا میوزک بالکل الگ تھلگ ہے اور ان کے ساز جدا ہیں۔سنٹوگے سننے میں بالکل گٹار کی طرح لگتا ہے۔

میوزک کی دنیا میں کافی حد تک کامیابی کے باوجود بھی روجر اور ان کے بینڈ کے دیگر ممبران کو عام زندگی میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بہت سے ایسے کام ہیں جو یہ لوگ اپنی معذوری کی وجہ سے نہیں کر پاتے۔ ہر شام انہیں کنشاسا کی سڑکوں پر یا مختلف بار میں جا کر میوزک پیش کرنا پڑتا ہے۔ ہیلتھ انشورنس نہ ہونے کی وجہ سے بیماری کی صورت میں اخراجات پورے کرنا ان کے لئے ایک مسئلہ بن جاتا ہے۔ اپنے جیسے دیگر افراد کی ہمت بڑھانے، معذوری کی وجوہات بیان کرنے کے حوالے سے انہوں نے کئی گیت ترتیب دیے ہیں۔

رپورٹ: عدنان اسحاق

ادارت: افسر اعوان

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید