1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مظفر آباد چلو مارچ کا دوسرا خونریز دن

گوہر نذیر گیلانی12 اگست 2008

پیر اور منگل کے روز وادی کے مختلف علاقوں سے ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے کرفیو، ناکہ بندی اور دیگر پابندیوں کے باوجود اس مارچ میں حصّہ لیا جسے ’مظفر آباد چلو‘ کا نام دیا گیا۔

https://p.dw.com/p/Evqy
جموّں صوبے کے کشتواڑ علاقے میں بھی ہنگامے ہوئے، ایک زخمی کو جموّں کے ہسپتال میں پہنچایا جا رہا ہےتصویر: AP

مظفر آباد مارچ: مظاہرین پر گولیوں کی بارش

منگل کے روز مُظاہروں کو روکنے کے لئے حکام نے کرفیو نافذ کر رکھا تھا، تاہم مختلف کشمیری رہنماؤں کی قیادت میں کشمیری عوام نے اِس کرفیو کی خلاف ورزی کی۔ بھارتی فوج، نیم فوجی دستوں اور ریاستی پولیس کے اہلکاروں نے مظاہرین کو جگہ جگہ روکا اور حد متارکہ یعنی لائن آف کنٹرول کی جانب ان کی پیش قدمی کو ناکام بنا دیا۔

پیر کو اِس مارچ کے پہلے روز فوج اور سیکورٹی فورسز کی طرف سے مختلف جلوسوں پر فائرنگ کے نتیجے میں ایک سرکردہ حریت رہنما شیخ عبدالعزیز سمیت کم از کم چار افراد ہلاک ہوئے۔آج بھی سیکیورٹی فورسز نے مظاہرین پر گولی چلائی اور ایک 55 سالہ خاتون سمیت کم از کم 11 افراد کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ 100 سے کہیں زیادہ افراد زخمی ہوئے ہیں۔ اس طرح گُزشتہ دو روز میں ہلاک ہونے والے افراد کی مجموعی تعداد پندرہ ہوگئی ہے۔

’پرانی یادیں تازہ‘

سن 1947ء کے بعد سے بالعموم اور 1989ء سے بالخصوص کشمیر کی سیاسی صورتحال پر گہری نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ اس وقت کشمیری عوام کی طرف سے آزادی کے حق میں جو مظاہرے ہورہے ہیں، وہ سن 1990ء کے اُن جلسوں اور جلوسوں کی یاد تازہ کررہے ہیں جب لوگ لاکھوں کی تعداد میں بھارت کی حکمرانی کے خلاف سڑکوں پر نکلا کرتے تھے۔

Protest "Muzaffarabad March"
کشمیری مسلمان آزادی کے حق میں نعرے لگارہے ہیںتصویر: AP

بھارت کے زیر انتظام ریاست مسلم اکثریتی وادی میں پھلوں کی پیداوار سے منسلک فروٹ گروئرز ایسوسی ایشن، تاجروں کی انجمنوں، سول سوسائٹی کے اتحاد کولیشن آف سول سوسائٹی، علیحدگی پسند اتحاد حریت کانفرنس کے دونوں دھڑوں، یہاں تک کہ ہند نواز جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف سے بھی ’مظفر آباد چلو‘ مارچ کی حمایت کی گئی۔

پھلوں کے تاجروں، کشمیر ی علیحدگی پسند جماعتوں، سول سوسائٹی اور کشمیری عوام کا جموّں صوبے کی ہندو شدت پسند تنظیموں پر الزام ہے کہ انہوں نے گُزشتہ دو ہفتوں سے 294 کلو میٹر طویل جموّں - سری نگر قومی شاہراہ کے راستے وادی کشمیر تک اشیاء ضروری کی سپلائی نہیں پہنچنے دی۔ پھلوں کا کاروبار کرنے والو ں کا کہنا ہے کہ قومی شاہراہ مسلسل بند رہنے کے باعث ان کے سیب اور دیگر تازہ پھل گلنا سڑنا شروع ہو گئے ہیں اور اس لئے وہ اپنا مال مظفر آباد اور راولپنڈی کی فروٹ منڈیوں میں فروخت کرنا چاہتے ہیں۔

پیر اور منگل کے روز ہزاروں تاجروں نے کنٹرول لائن کی جانب پیش قدمی کی کوشش کی لیکن بھارتی فوج اور سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں نے ان پر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں کم از کم پندرہ ہلاکتیں ہوئیں۔

’ فائرنگ کا کوئی جواز نہیں‘

کشمیر کے معروف تجزیہ نگار اور انگریزی روزنامے ’کشمیر امیجز‘ کے مدیر بشیر منظر نے مظاہرین پر فوج اور پولیس کی طرف سے فائرنگ کو افسوسناک قرار دیا۔ ڈوئچے ویلے اُردو سے بات کرتے ہوئے بشیر منظر نے کہا کہ ایک طرف بھارت اور پاکستان کی حکومتیں سری نگر۔ مظفر آباد روڑ سے تجارت شروع کرنے کی باتیں کررہے ہیں اور دوسری طرف مظفر آباد میں اپنا مال فروخت کرنے کی خواہش رکھنے والے تاجروں پر گولیوں کی بارش کررہے ہیں۔

Proteste in Kaschmir
معروف علیحدگی پسند رہنما سید علی شاہ گیلانی سری نگر کے مزار شہدا کی طرف جاتے ہوئے، جہاں حریت رہنما شیخ عبدالعزیز کو سپرد خاک کیا گیاتصویر: AP

’’ سیکورٹی فورسز کی طرف سے مُظاہرین پر فائرنگ اور طاقت کے استعمال کا کوئی جواز نہیں ہے۔ حکومت کے اس اقدام کا کوئی ’لاجک‘ نہیں ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ بھارتی حکومت تذبذب کی شکار ہے۔ اس کو کشمیر میں اس حد تک صورتحال بگڑنے کا اندازہ ہرگز نہیں تھا۔‘‘

بشیر منظر کا مذید کہنا تھا کہ حکومت نے کشمیر کے فروٹ گروئرز کے فیصلے کو سنجیدگی کے ساتھ نہیں لیا۔ ’’ کشمیریوں کو سری نگر۔ مظفر آباد روڈ سے تجارت شروع ہونے سے بہت فائدہ ہوگا۔‘‘

دوسری جانب معروف علیحدگی پسند رہنما سید علی شاہ گیلانی نے منگل کے روز عوام سے اپیل کی کہ وہ پرامن رہیں۔ ’’ میں آپ سے درمندانہ اپیل کرتا ہوں کہ ہماری یہ جدوجہد پر امن رہنی چاہیے۔ اور ہمیں کوئی ایسی حرکت نہیں کرنی چاہیے جس سے یہاں کی ’غاصب قوتوں‘ کو ہم پر طاقت کا استعمال کرنے کا جواز ملے۔‘‘

یونیورسٹی آف کشمیر میں شعبہ قانون میں استاد اور بین الاقوامی قانون کے ماہر شیخ شوکت حسین نے اس سلسلے میں ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ کشمیری عوام میں منقسم کشمیر کو ملانے والے سری نگر- مظفر آباد راستے کو مکمل طور پر کھولنے کا مطالبہ زور پکڑتا جارہا ہے۔ اُنہوں نے کہا: ’’پچھلے کئی ہفتوں سے کشمیر کی ناکہ بندی کی گئی ہے۔ اور یہاں لوگ فاقہ کشی کی حد تک پہنچ گئے ہیں، ادویات کی زبردست قلت ہے، تاجروں کے تازہ پھل گل سڑ رہے ہیں، ایسے حالات میں سول سوسائٹی ’مظفر آباد چلو‘ مارچ کی حمایت کے بغیر اور کیا کرسکتی تھی۔‘‘

شیخ شوکت نے بتایا کہ سری نگر - جموّں شاہراہ کشمیر کا قدرتی راستہ نہیں ہے جبکہ سری نگر- مظفر آباد روڈ شدید برف باری اور خراب موسم کے باوجود کشمیر کو دیگر خطّوں سے ملانے والا ایک ایسا آسان اور آرام دہ راستہ ہے، جسے مقامی باشندے صدیوں سے استعمال کرتے چلے آئے تھے۔ شیخ شوکت حسین نے ’مظفر آباد چلو‘ تحریک کے بارے میں مزید بتایا: ’’جب ایک راستہ بند ہوجائے تو سول سوسائٹی اور سیاسی قیادت کے پاس کوئی راستہ نہیں ہے بجز اس کے کہ وہ متبادل راستے تلاش کرے۔‘‘

’اقتصادی آزادی کی بنیاد‘

کُل جماعتی حریت کانفرنس کے اعتدال پسند دھڑے کے چیئر مین میر واعظ عمر فاروق نے سری نگر میں ہمارے نمائندے شجاعت بخاری کو ٹیلی فون پر بتایا کہ کشمیر وادی کے شہروں اور دیہاتوں سے لاکھوں افراد سڑکوں پر نکل آئے اور ’مظفر آباد چلو‘ مارچ میں حصّہ لیا۔ میر واعظ عمر فاروق نے مزید کہا: ’’ آج مظفر آباد چلو نعرے کے ساتھ عام کشمیری بنیادی لحاظ سے اقتصادی آزادی کی بنیاد ڈال رہا ہے۔‘‘

Abdul Aziz
حریت رہنما شیخ عبدالعزیز پیر کے روز سیکورٹی فورسز کی فائرنگ کے نتیجے میں ہلاک ہوئےتصویر: AP

پیر کے روز ہلاک ہونے والے حریت رہنما شیخ عبدالعزیز کی میت جب آج سری نگر کی سڑکوں سے ہوتے ہوئے گذری، تو تقریباً پچاس ہزار شہری اُس کے ساتھ ساتھ تھے، جو ’’ہم آزادی چاہتے ہیں‘‘ اور ’’خون کا بدلہ خون‘‘ کے نعرے بلند کر رہے تھے۔

پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھارت پر حد سے زیادہ اور بلا اشتعال طاقت استعمال کرنے کا الزام عاید کیا ہے اور حریت رہنما عبدالعزیز کی ’’شہادت‘‘ پر گہرے دکھ کا اظہار کیا ہے۔

’تنازعہ کی وجہ‘

مسلم اکثریتی ریاست جموّں و کشمیر میں ہندوٴوں کی ایک مقدس غار واقع ہے‘ جسے امرناتھ گھپا کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ہر سال بھارت کی مختلف ریاستوں سے لاکھوں ہندو عقیدت مند امرناتھ غار کی زیارت کے لئے کشمیر کا رُخ کرتے ہیں۔ اس یاترا کے انتظامات کے لئے چند برس قبل‘ شری امرناتھ شرائن بورڈ تشکیل دیا گیا تھا۔عقیدت مندوں یا یاتریوں کو سہولیات فراہم کرنےکے لئے ابھی حال ہی میں ریاست کی مخلوط حکومت کی کابینہ نے شرائن بورڈ کو آٹھ سو کنال زمین منتقل کرنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن یہی فیصلہ موجودہ بحران کی وجہ بنا۔

پی ڈی پی کی طرف سے حمایت واپس لینے کے فیصلے کے نتیجے میں کانگریس کی سربراہی والی مخلوط حکومت کو شدید دھچکہ پہنچا اور اس طرح ریاست کو ایک نئے بحران کا سامنا ہوا۔ شدید دباؤ کے پیش نظر ریاستی حکومت نے شرائن بورڈ کو زمین منتقل کئے جانے کا فیصلہ واپس لیا۔ لیکن اس فیصلے کے خلاف سیاسی بے چینی کی شکار ریاست کے جموّں صوبے میں ہندوٴوں کی طرف سے احتجاجی مظاہرے سامنے آئے۔ ہر گُذرتے دن کے ساتھ ریاستی وزیر اعلیٰ غلام نبی آزاد پر سیاسی دباؤ بڑھتا ہی چلا گیا اور بالآخر سات جولائی کو وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے۔