1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مصری سکیورٹی فورسز پرجیل میں بچوں کو اذیت دینے کا الزام

24 مارچ 2020

حقوق انسانی کی ایک بین الاقوامی تنظیم نے الزام لگایا ہے کہ مصری سکیورٹی فورسز بچوں کے ساتھ مختلف طرح کی زیادتیاں کر رہی ہیں جن میں ان کی جبراً گمشدگی، اندھا دھند گرفتاری اور جیلوں میں اذیت دینے جیسے معاملات شامل ہیں۔

https://p.dw.com/p/3ZwT3
Symbolbild Gefängnis
تصویر: Getty Images/AFP/M. Abed

حقوق انسانی کی بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ بارہ برس کی عمرتک کے کم عمر بچوں کو بھی قید میں ’واٹر بورڈنگ‘  اور بجلی کے جھٹکے لگانے جیسی اذیتیں دی جاتی ہیں۔

ہیومن رائٹس واچ نے یہ رپورٹ بارہ اور سترہ برس کے درمیان عمر والے گرفتار کیے گئے بیس بچوں کے ساتھ بات چیت کی بنیاد پر تیار کی ہے۔ یہ رپورٹ پیر 23 مار چ کو جاری کی گئی۔

حقوق انسانی کی تنظیم نے جن بیس بچوں کے بیانات ریکارڈ کیے ہیں ان میں سے پندرہ نے بتایا کہ قید میں ڈالنے سے قبل بھی ان کو اذیتیں دی گئیں۔ سات بچوں کا کہنا تھا کہ انہیں بجلی کے جھٹکے دیے گئے اور اذیت دینے کے لیے اسٹن گن کا استعمال کیا گیا۔

ہیومن رائٹس واچ میں بچوں کے حقوق کے امور کے ڈائریکٹر بل وان ایسویلڈ نے رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا،’’بچوں کا کہنا تھاکہ ان کے ساتھ واٹر بورڈنگ کی گئی۔ ان کی زبان اور مخصوص اعضاء پر بجلی کے جھٹکے لگائے گئے۔ لیکن مصری سکیورٹی فورسز سے اس معاملے میں کوئی پوچھ گچھ کرنے والا نہیں ہے۔“

خیال رہے کہ واٹر بورڈنگ اذیت دینے کا ایک مخصوص طریقہ ہے۔ جس شخص کو اذیت دی جاتی ہے اس کے چہرے پر کپڑا باندھ کر مسلسل پانی ڈالا جاتا ہے جس سے اس کا دم گھٹنے لگتا ہے اور وہ محسوس کرتا ہے کہ پانی میں ڈوب رہا ہے۔

حقوق انسانی کی اس بین الاقوامی تنظیم نے یورپی یونین اور امریکا سے اپیل کی ہے کہ وہ مصری سکیورٹی فورسز کے ساتھ ہر طرح کا تعاون اس وقت تک روک دے جب تک مصری سکیورٹی فورسز حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ بند نہیں کر دیتیں اور قصورواروں کے خلاف کارروائی نہیں کی جاتی ہے۔

Ägypten Anti-Regierungsproteste in Kairo
السیسی حکومت نے اپنے مخالفین کے خلاف کارروائیوں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہےتصویر: Reuters/A. A. Dalsh

رپورٹ کے مطابق سکیورٹی فورسز کی زیادتیوں کا شکار ہونے والے ایک بچے نے بتایا کہ جب اسے گرفتار کیا گیا تھا اس وقت اس کی عمر سولہ برس تھی اور قید کے دوران جیل اہلکاروں نے اس کے ساتھ جس طرح کی زیادتیاں کی ہیں اس کے بعد اسے لگتا ہے کہ ”وہ کبھی شادی نہیں کر سکے گا اور اگر شادی ہوگئی تو بچے پیدا نہیں کرسکے گا۔“

ایک دیگر معاملے میں ایک پندرہ سالہ بچے کو دونوں ہاتھ باندھ کر چھت سے لٹکا دیا گیا جس کی وجہ سے اس کے ’کندھے اکھڑ گئے۔‘

جیل کے ایک اہلکار نے ایک سترہ سالہ بچے کو دھمکی دی کہ اگر اس نے اپنا جرم تسلیم نہیں کیا تو وہ دوبارہ اسی افسر کے پاس بھیج دے گا جس نے اسے اذیتیں دی تھیں۔ اس بچے نے اپنے خون آلودہ کپڑے عدالت کو دکھائے اور بتایا کہ اسے کس طرح اذیتیں دی گئیں۔

ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ اس نے بچوں کے بیانات کی تصدیق کی ہے۔ اس کام کے لیے اسٹریٹ چلڈرن کی مدد کرنے والی ایک غیر حکومتی تنظیم بلادی کے تعاون سے بچوں کے والدین کے بیانات لیے گئے اور عدالتی دستاویزات، میڈیکل ریکارڈز اور ویڈیو کی مدد سے ان کی تصدیق کی گئی۔

ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ سن 2014 میں صدر عبدالفتاح السیسی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ہی بچوں کو اذیت دینا اور ا ن کے ساتھ زیادتی کرنا سیکورٹی فورسز کا معمول بن گیا ہے۔

مصری حکام نے اس رپورٹ پر فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے تاہم وہ قید میں زیادتیوں کے اس طرح کے الزامات کی بالعموم تردید کرتے رہے ہیں۔

یہ امر قابل ذکر ہے کہ سن 2013 میں صدر محمد مرسی کو اقتدار سے برطرف کرنے کے بعد سے ہی مصر کی السیسی حکومت نے اپنے مخالفین کے خلاف کارروائیوں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔  حکومت پر الزام ہے  کہ اس نے ہزاروں اسلام پسندوں نیز سیکولر اور جمہوریت نواز کارکنوں کو جیلوں میں ڈال دیا ہے۔

ج ا/ ص ز    اے پی، اے ایف پی