1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہمقبوضہ فلسطینی علاقے

مصری ثالثی سے اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان جنگ بندی

8 اگست 2022

اسرائیل اور اسلامی جہاد گروپ نے جنگ بندی کا اعلان کیا جو اتوار کی رات سے نافذ ہو گیا ہے۔ اس جنگ بندی سے اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان گزشتہ برس کے بعد سے بدترین تصادم کے خاتمے کی امیدیں پیدا ہو گئی ہیں۔

https://p.dw.com/p/4FFng
Israel | Palästinenser | Raketenangriffe aus dem Gzsastreifen
تصویر: Ariel Schalit/AP Photo/picture alliance

مصر کی ثالثی کے بعد ہونے والی یہ جنگ بندی اتوار کو مقامی وقت کے مطابق رات ساڑھے گیارہ بجے شروع ہوئی، جس کا مقصد غزہ میں گزشتہ برس گیارہ روزہ جنگ کے بعد سے بدترین لڑائی کو روکنا ہے۔

قبل ازیں فلسطین کے اسلامی جہاد گروپ نے اعلان کیا تھا کہ وہ مصر کی ثالثی میں جنگ بندی پر متفق ہے۔

اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان گزشتہ برس کے بعد سے اس سب سے شدید تصادم میں اب تک کم از کم 44 افراد فلسطینی ہو چکے ہیں، جن میں 15 بچے شامل ہیں۔

امریکہ کی طرف سے جنگ بندی کا خیرمقدم 

امریکی صدر جو بائیڈن نے جنگ بندی کا خیر مقدم کرتے ہوئے شہریوں کی اموات کو "سانحہ" قرار دیتے ہوئے اس معاملے کی تحقیقات پر زور دیا ہے۔

وائٹ ہاوس کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے، ''گزشتہ 72 گھنٹوں میں امریکہ نے اسرائیل، فلسطینی اتھارٹی، مصر، قطر، اردن اور خطے کے دیگر ممالک کے اہلکاروں کے ساتھ مل کر کام کیا ہے تاکہ تنازعے کا جلد سے جلد حل نکالا جاسکے۔‘‘

وائٹ ہاؤس کی طرف سے جاری کردہ بیان میں امریکی صدر نے مزید کہا، ''میں مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی اور دیگر اعلیٰ عہدیداروں کا شکر گزار ہوں، جنہوں نے سفارت کاری میں کردار ادا کیا اور اس کے ساتھ ساتھ قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی اور ان کی ٹیم کا بھی جنہوں نے لڑائی ختم کروانے میں مدد کی۔‘‘

اسرائیلی وزیر اعظم یائر لیپیڈ نے بھی مصر کی ثالثی کے لیے شکریہ ادا کیا۔

اسلامی جہاد کے ترجمان طارق سلمی نے اپنے ایک بیان میں کہا، ''ہم مصر کی ان کوششوں کو سراہتے ہیں جو اس نے ہمارے عوام کے خلاف اسرائیلی جارحیت کے خاتمے کے لیے کی ہیں۔‘‘

اقوام متحدہ میں مشرق وسطیٰ کے نمائندے نے ایک بیان میں کہا، ''صورت حال اب بھی نازک ہے اور میں تمام فریقین پر زور دوں گا کہ وہ جنگ بندی کے پابند ہوں۔‘‘

Palästinenser suchen in den Trümmern eines Wohnhauses
تصویر: Ismael Mohamad/UPI/IMAGO

تشدد کے تازہ ترین دور میں کیا ہوا؟

اسرائیل نے فلسطینی عسکریت پسندوں کے خلاف فوجی کارروائی کا آغاز جمعے کے روز کیا تھا۔ اسرائیلی فضائی حملوں میں اسلامی جہاد کے اب تک کئی اعلیٰ رہنما مارے جا چکے ہیں۔ ان میں سینیئر کمانڈر خالد منصور اور تیسیر الجباری بھی شامل ہیں۔

اسرائیلی دفاعی فوج کا کہنا ہے کہ منصور اور الجباری دونوں ہی دہشت گردانہ حملوں کا منصوبہ بنا رہے تھے۔

فلسطین کی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ اسرائیلی حملوں میں اب تک 44 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ ان میں متعدد بچے شامل ہیں۔ غزہ میں حکام کے مطابق اسرائیلی حملوں میں کم از کم 311 افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔

اسرائیل کا کہنا ہے کہ بچے اسلامی جہاد  کی جانب سے غلطی سے راکٹ فائر ہو جانے کی وجہ سے ہلاک ہوئے ہیں۔

اس دوران فلسطینی عسکریت پسندوں نے تل ابیب اور اشکلون سمیت متعدد اسرائیلی شہروں پر سینکڑوں راکٹ داغے۔ ان راکٹوں کی وجہ سے اب تک دو اسرائیلیوں کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کے مورٹر حملوں کی وجہ سے اسرائیل غزہ ایریز سرحدی کراسنگ کو بھی نقصان پہنچا ہے۔

Gaza Streifen | Palästinenser bejubeln Waffenruhe
تصویر: Ashraf Amra/ZUMA/IMAGO

غزہ میں انسانی بحران میں اضافہ

تازہ ترین تصادم کی وجہ سے غزہ میں انسانی صورت حال مزید ابتر ہو گئی ہے۔

غزہ ہسپتال کے سربراہ نے بتایا کہ الشفا ہسپتال میں ہر منٹ زخمیوں کو لایا جا رہا ہے۔ دواؤں کی قلت ہے اور بجلی مسلسل گل ہو رہی ہے۔

اسرائیل نے سکیورٹی اسباب کی بنا پر اس ہفتے کے اوائل میں غزہ کراسنگ کو بند کردیا تھا جبکہ ایندھن کی قلت کی وجہ سے غزہ کے واحد بجلی پلانٹ کو بند کرنا پڑا ہے۔

ج ا/ ع ب (اے ایف پی، روئٹرز)

غزہ پٹی میں اسرائیلی دفاعی افواج کے جوابی حملے

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید