مصر انتخابات، انتخابی عمل بے ضابطگیوں کا شکار
6 دسمبر 2011انتخابات کے پہلے مرحلے میں اعتدال پسند جماعتوں کے مقابلے میں اسلام پسند جماعتوں کو واضح اکثریت حاصل ہوئی ہے۔گزشتہ ہفتے پارلیمانی انتخابات کے ابتدائی مرحلے میں معروف اسلام پسند جماعت اخوان المسلمین کو واضح برتری حاصل ہے جبکہ غیر متوقع طور پر سخت گیر اسلامی مؤقف کی حامل جماعت النور پارٹی، اخوان المسلمین کی قریب ترین حریف ہے۔ آئندہ برس جنوری میں مکمل ہونے والے تینوں انتخابی مراحل کے نتیجے میں ان اسلام پسندوں کو موجودہ حکمران فوجی کونسل کو چیلنج کرنے کا واضح مینڈیٹ مل سکتا ہے۔حکمران فوجی کونسل کو پہلے ہی سے آئندہ برس کے وسط تک اختیارات سول انتظامیہ کے حوالے کرنے کے لیے شدید عوامی دباؤ کا سامنا ہے۔
تاہم اسلام پسند بھی آپس میں متحد نہیں ہیں جس کے باعث پارلیمنٹ میں اکثریتی بلاک بنانے میں انھیں مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس صورتحال کا فائدہ اعتدال پسند اٹھا سکتے ہیں اور ملک کے لیے نئے دستور سازی کے عمل میں ان کا کردار بڑھ سکتا ہے۔ پہلے انتخابی مرحلے کے دوران ووٹرز کی طویل قطاریں دیکھنے کو نہیں ملی ہیں تاہم سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کی جانب سے انتخابی قواعد کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنی جماعت کے حق میں مہم چلانے کے کئی واقعات سامنے آتے رہے ہیں۔
مصر میں انسانی حقوق کے لیے سرگرم رہنماء اور انتخابی عمل کے مبصر طارق زاغلول کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ پارٹی کارکنوں کی جانب سے انتخابی قواعد کی خلاف ورزیاں پولنگ اسٹیشنوں کے سامنے اسی طرح ہوتی رہیں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتیں ایسے مذہبی نعرے بھی استعمال کر رہی ہیں جن پر پابندی عائد ہے۔ انتخابی کمیٹی نے بھی ان خلاف ورزیوں کا نوٹس لیتے ہوئے ان کے سدباب کے لیے عملی اقدامات کی یقین دہانی کرائی ہے، تاہم کمیٹی کا یہ بھی مؤقف ہے کہ ان بے ضابطگیوں کے باوجود پارلیمانی انتخابات کے عمل کو کمزور نہیں کہا جا سکتا۔
اسی طرح پارلیمانی انتخابات کی نگرانی کرنے والے ایک اور آزاد مبصر گروپ نے انتخابی کمیٹی پر زور دیا ہے کہ انتخابی مرحلے کے دوران انتظامی بے قاعدگیوں کا خاتمہ کیا جائے اور ووٹوں کی گنتی کے عمل کو بھی سازگار بنایا جائے۔ انتخابی کمیٹی کی جانب سے شائع کیے گئے پہلے مرحلے کے نتائج کے مطابق اخوان المسلمین کی حمایت یافتہ اسلامی جماعت فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی کو 36.6 فیصد، سخت گیر اسلامی مؤقف کی حامل جماعت النور پارٹی کو 24.4 فیصد جبکہ اعتدال پسند بلاک کو 13.4 فیصد ووٹ ملے تھے۔
رپورٹ: شاہد افراز خان
ادارت: حماد کیانی