1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مشکل کی اس گھڑی میں منافع کے بجائے جذبہ خدمت

9 اپریل 2020

کراچی کے دو نوجوان بھی آغا خان اسپتال کو محض اپنی لاگت کی قیمت پر کورونا سے دفاع کے لیے گیارہ ہزار حفاظتی لباس فراہم کر رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/3ag6f
Pakistan Modedesigner Aasim Jofa PPE Dr. Semin Jamali
تصویر: privat

پاکستان بھر میں کرونا وائرس سے نمٹنے کی لیے 'پرسنل پروٹیکٹو گیئرز‘ کی طلب میں اضافے نے مقامی صنعت کاروں کو بھی حفاظتی لباس بنانے کی جانب راغب کیا ہے۔ لیکن عاصم جوفا نے محض انسانیت کی مدد کی خاطر میڈیکل عملے کے لیے حفاظتی لباس تیار کیا ہے جسے وہ مفت فراہم کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ کراچی کے دو نوجوان بھی آغا خان اسپتال کو محض اپنی لاگت کی قیمت پر کورونا سے دفاع کے لیے گیارہ ہزار حفاظتی لباس فراہم کر رہے ہیں۔

کراچی سے تعلق رکھنے والے دو کزن ہارون زہیر اور حافظ محمد نعمان اپنی تعلیم کے ساتھ ساتھ ورک ویئر مینوفیکچرنگ کے فیملی بزنس کو دیکھ رہے ہیں۔ ہارون آئی بی اے کراچی سے ایم بی اے کی ڈگری مکمل کر رہے ہیں جبکہ نعمان نے محمد علی جناح یونیورسٹی سے ایم بی اے کیا ہے۔

ہارون نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی کمپنی خطرناک کام کرنے والے عملے کے لیے خصوصی یونیفارم تیار کرتی ہے اور ہیلتھ کیئر انڈسٹری کے لیے خوردبینی جانداروں سے بچاؤ کے لیے خصوصی لباس بھی بناتی ہے۔

Pakistan  Nouman und Haroon  PPE Anzüge Schutzanzug Agha Khan Hospital
نعمان اور ہارون کی کمپنی مزید کئی اداروں کو بھی یہ سوٹ فراہم کر رہی ہے تاہم موجودہ حالات میں اس مقصد کے لیے درکار خصوصی کپڑا دستیاب ہونے کے سبب ان کی پروڈکشن کی صلاحیت محدود ہے۔تصویر: privat

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ہارون اور نعمان نے آئسولیشن سوٹس کی تیاری کے حوالے سے بتایا، ''چین کے شہر ووہان میں کورونا وائرس کی وبا پھوٹ پڑنے پر ہمیں اس بارے میں ریسرچ کا خیال آیا۔ جب ووہان اس وبا کی لپیٹ میں تھا تو ہم پاکستان میں معیاری کپڑا تلاش کر رہے تھے۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے اس وبا نے پاکستان کے پڑوسی ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور اس وقت تک ہم آئیسولیشن سوٹ تیار کر چکے تھے۔ ہمیں اندازہ تھا کہ اس وبا کا سامنا پاکستان کو بھی کرنا پڑ سکتا ہے اور پاکستان میں ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف کے لیے خاطر خواہ انتظامات نہیں ہیں۔ ہم نے احتیاطی تدابیر کے پیش نظر یہ یونیفارم بنا کر آغا خان یونیورسٹی ہسپتال سے رابطہ کیا۔ اور ہمارے بنائے گئے نمونے ان کے معیار پر پورے اترے۔‘‘

نعمان اور ہارون کی کمپنی مزید کئی اداروں کو بھی یہ سوٹ فراہم کر رہی ہے تاہم موجودہ حالات میں اس مقصد کے لیے درکار خصوصی کپڑا دستیاب ہونے کے سبب ان کی پروڈکشن کی صلاحیت محدود ہے۔

نعمان اور ہارون کے بقول ایک سوٹ پر ان کی لاگت 650 پاکستانی روپے کے قریب ہوتی ہے جس کے بعد اسے جراثیم سے پاک کرنے کے لیے الگ خرچہ ہوتا ہے۔ تاہم پاکستانی طبی اسٹاف کو درپیش مسائل کے سبب وہ مشکل کی اس گھڑی میں منافع کمانے کی بجائے اسے قریب اپنی لاگت کے برابر قیمت پر ہی فراہم کر رہے ہیں۔

Pakistan  Nouman und Haroon  PPE Anzüge Schutzanzug Agha Khan Hospital
عاصم نے بتایا کہ ان کا عملہ جو سلائی کا کام کرتا ہے وہ ان PPE کی سلائی کی اجرت لینے سے انکاری ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اس نیکی میں ان کا بھی حصہ ہونا چاہیے۔تصویر: privat

معروف ڈریس ڈیزائنر عاصم جوفا تو مشکل کی اس گھڑی میں انسانیت کی مدد کی خاطر حفاظتی لباس یا PPE مفت بنا کر فراہم کر رہے ہیں۔ وہ یہ لباس کراچی کے معروف سرکاری ہسپتال JPMC کو فراہم کر رہے ہیں۔ جے پی ایم سی کی میڈیکل ڈائریکٹر ڈاکٹر سیمی جمالی نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے عاصم جوفا کے جذبہ خدمت کو سراہا: ’’جوفا نے یہ سب کچھ کسی تشہیر کے لیے نہیں کیا کیونکہ وہ پہلے ہی فیشن انڈسٹری کا بہت بڑا نام ہے۔ میں جوفا کو پرتپاک تھپکی دینا چاہتی ہوں۔‘‘

یاد رہے کہ سیمی جمالی ایک ایسے اسپتال کی سربراہ ہیں جہاں عموماً خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والے علاج معالجے کے لیے آتے ہیں۔ سیمی کے مطابق ایسے اسپتالوں کو سائنسی سامان کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ PPE's کے موجودہ ذخیرے سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ JPMC کے پاس ایک ماہ کا اسٹاک موجود ہے اور اس کے لیے وہ عاصم جوفا کی شکر گزار ہیں۔

آپ کو اس نیکی کا خیال کیسے آیا؟ ڈی ڈبلیو کے اس سوال کے جواب میں عاصم جوفا کا کہنا تھا، ''میں آج جو کچھ بھی ہوں اپنے ملک کی وجہ سے ہوں یہ محبت اور نام اس وطن سے وابستہ ہے۔ پاکستان سے اسی محبت کے سبب مجھے یہ خیال آیا کیوں نہ آزمائش کی اس گھڑی میں اپنے فیشن ڈیزائن کے عملے کے مدد سے میں میڈیکل اسٹاف کے لیے PPE's تیار کروں۔ یہی وہ سوچ تھی جس نے مجھے سیمی جمالی سے ملوایا۔‘‘

Pakistan Modedesigner Aasim Jofa PPE Dr. Semin Jamali
جوفا نے یہ سب کچھ کسی تشہیر کے لیے نہیں کیا کیونکہ وہ پہلے ہی فیشن انڈسٹری کا بہت بڑا نام ہے۔ میں جوفا کو پرتپاک تھپکی دینا چاہتی ہوں, ڈاکٹر سیمی جمالیتصویر: DW/R. Riaz

عاصم نے بتایا کہ ان کا عملہ جو سلائی کا کام کرتا ہے وہ ان PPE کی سلائی کی اجرت لینے سے انکاری ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اس نیکی میں ان کا بھی حصہ ہونا چاہیے۔

عاصم جوفا گزشتہ سات سالوں سے ''گرین پاکستان کلین پاکستان‘‘ کے نام سے ایک مہم بھی چلا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کے لیے میں نے کبھی کسی سے مدد نہیں لی اور اس کے تحت وہ کراچی کے مختلف مقامات پر شجرکاری کرا رہے ہیں۔جوفا کے بقول اگر ان کا بس چلے تو پاکستان کا ہر حصہ سرسبز کردیں۔

عاصم جوفا یہ 'آئیسولیشن سوٹ‘ جے پی ایم سی کے علاوہ پولیس، رینجرز، ڈینٹل انسٹیٹیوٹ اور ڈی سی ساؤتھ کو بھی فراہم کر رہے ہیں اور پر امید ہیں کے وہ پاکستان بھر میں یہ PPE's بھجوائیں گے۔

عاصم جوفا کے بقول پاکستانی عوام نے ان کی اس کاوش کو بہت زیادہ سراہا ہے، '' مجھے اندازہ نہیں تھا کہ ایک بار پھر مجھے بے تحاشا پیار ملے گا ۔ عوام کا یہ پیار مجھے یاد دلاتا ہے کہ مجھے اپنے ملک کے لیے کچھ کرنا ہے۔‘‘