1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مشکل میں کون، جمہوریت یا پیپلز پارٹی؟

28 دسمبر 2018

بلاول بھٹو اور سابق صدر آصف علی زرداری سمیت 172 افراد کے بیرون ملک جانے پر پابندی عائد کردی گئی ہے، جس کے بعد عام تاثر یہ ہے کہ جلد ہی منی لانڈرنگ اور کرپشن کے الزامات میں گرفتاریوں کا ایک طویل سلسلہ شروع ہونے والا ہے۔

https://p.dw.com/p/3Ajd8
Pakistan ehemaliger Staatsoberhaupt Asif Ali Zardaris Rückkehr
تصویر: DW/R. Saeed

عمران خان کی حکومت نے سپریم کورٹ کی جانب سے منی لانڈرنگ کی تحقیقات کے لیے بنائی گئی جوائنٹ انوسٹیگیشن ٹیم (جے آئی ٹی) کی رپورٹ کو جواز بنا کر پیپلز پارٹی کی قیادت اور ان سے منسلک افراد کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کر دیے ہیں۔ ان میں بلاول بھٹو، آصف علی زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور کے علاوہ سندھ کے موجودہ اور سابق وزرائے اعلیٰ مراد علی شاہ اور سید قائم علی شاہ کے نام بھی شامل ہیں۔ ان کے علاوہ کئی سابق وزراء، بزنس ٹائیکون ملک ریاض اور ان کے بیٹے زین ملک، پہلے سے گرفتار انور مجید اور ان کے بیٹے عبدالغنی مجید سمیت متعدد ایسے افراد کے نام شامل ہیں، جن پر آصف علی زرداری کے کاروباری مفادات کا تحفظ کرنے کا الزام ہے۔

پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمان نے حکومتی اقدام پر ردعمل دیتے ہوئے کہا، ’’پیپلز پارٹی کی قیادت کو حراساں کیا جا رہا ہے اور عمران خان کی جماعت تحریک انصاف کی بجائے تحریک انتقام بن چکی ہے۔ پیپلز پارٹی پہلے بھی الزامات کا عدالتوں میں سامنا کر کے سرخرو ہوئی ہے اور آئندہ بھی ایسا ہی ہوگا۔ پیپلز پارٹی آئین اور قانون کی بالادستی پر یقین رکھتی ہے اور ہم قانونی طریقے سے تمام الزامات کا عدالتوں میں سامنا کریں گے۔‘‘

تاہم تجزیہ کاروں کے مطابق پیپلز پارٹی کے لیے موجود وقت مشکل ترین ہے کیونکہ اب وہ قومی جماعت نہیں رہی، لہذا اس حوالے سے کوئی تحریک چلانا یا عوامی احتجاج کرنا ان کے بس کی بات نہیں ہے۔

Pakistan ehemaliger Staatsoberhaupt Asif Ali Zardaris Rückkehr
تصویر: DW/R. Saeed

 سینئر صحافی رانا جواد کا ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’وفاقی حکومت جمود کا شکار ہے اور ایک بڑی سیاسی جماعت کی قیادت کے خلاف کارروائی سے سیاسی درجہ حرارت میں اضافہ ہو گا، احتساب ضرور ہونا چاہیے مگر اس سے انتقام کا تاثر نقصان دہ ہے، پاکستان میں احتساب کا مطلب میڈیا ٹرائل ہوتا ہے لہذا تحریک انصاف کی قیادت کو بالغ نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ سندھ سے استعفے کا مطالبہ نہیں کرنا چاہیے تھا۔‘‘

قبل ازیں مراد علی شاہ کا نام جے آئی ٹی کی رپورٹ میں آتے ہی تحریک انصاف سندھ کی جانب سے بیان بازی کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا، جو آج ان کے استعفے کے مطالبے میں تبدیل ہو چکا ہے۔ تحریک انصاف سندھ کی جانب سے اراکین اسمبلی حلیم عادل شیخ اور خرم شیر زمان نے نیوز کانفرنس میں مطالبہ کیا، ’’دودھ کی رکھوالی پر بلے کو نہیں بٹھایا جا سکتا، مراد علی شاہ کو اخلاقی جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے مستعفی ہو جانا چاہیے تھا۔‘‘

تحقیقات رپورٹ کے مطابق سندھ حکومت میں کرپشن کے معاملات انتہائی سنگین ہیں۔ الزامات کے مطابق کمیشن لینے کے ساتھ ساتھ جعلی بھرتیاں اور اقرباء پروری بھی کی گئی۔ صحت، تعلیم، بلدیات، ٹرانسپورٹ، خوراک، زراعت سمیت 17 محکموں میں کرپشن کی گئی۔

 لگائے جانے والے الزامات کے مطابق سندھ کی بڑی جامعات میں اربوں روپے کی کرپشن کی گئی ہے جبکہ کراچی میں بچوں کے لئے امراض قلب کے ہسپتال کی تعمیر کا تخمینہ دو ارب روپے لگایا گیا تھا لیکن ابھی ہسپتال کی بنیادیں بھی مکمل نہ ہو پائیں تھیں کہ پیسے ختم ہو گئے تھے اور اب تعمیر کے لئے مزید ڈیڑھ ارب روپے مانگے جا رہے ہیں۔

سینئر تجزیہ کار وسعت اللہ خان کہتے ہیں، ’’پیپلز پارٹی سے جو کام لیا جانا تھا وہ مکمل ہو چکا۔ نواز دور میں بلوچستان کی حکومت کی فراغت سے یہ کام شروع ہوا، سینٹ کی چئیرمین شپ نواز لیگ کو نہیں لینے دے گئی تاہم اس وقت تک پیپلز پارٹی کو یہی دلاسہ دیا جاتا رہا کہ سندھ حکومت ان کے پاس ہی رہے گی۔‘‘

تاہم وسعت اللہ خان مزید کہتے ہیں کہ احتساب کے ہاتھی پر بیٹھ کر جو منصوبہ لایا گیا ہے وہ جمہوریت کے لیے خطرناک بھی ثابت ہو سکتا ہے، ’’مگر پیپلز پارٹی کے لیے مشکل یہ ہے کہ سندھ کی حکومت بچائے یا پھر تحریک چلائے؟ اندرون سندھ تو کسی حد تک تحریک چلائی بھی جا سکتی ہے مگر پنجاب میں نواز لیگ کو اپنی جان بچانی مشکل ہو رہی ہے، گو کے پارلیمنٹ میں عددی اعتبار سے حزب اختلاف کی جماعتیں مضبوط ہیں مگر طاقت بکھری ہوئی ہے، اگر احتساب متوازن ہوگا تو جمہوریت بچی رہے ہیں۔‘‘