1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مسلم شدت پسند خواتین کا نیٹ ورک، جرمن حکام کا ہدف

عاطف توقیر
27 دسمبر 2017

جرمنی میں داخلی سلامتی کے خفیہ ادارے نے بتایا ہے کہ شدت پسند مسلم خواتین کا ایک گروپ ملک ميں سرگرم ہے۔ جرمنی میں خواتین میں شدت پسندی کی جانب مائل ہونے کا رجحان خاصا تیز دیکھا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/2pzPo
Deutschland Salafismus Frauen
تصویر: picture alliance/dpa/U. Deck

جرمن حکام کا کہنا ہے کہ شدت پسند مردوں کو حراست میں لیے جانے کے بعد ان کی بیویاں ایک خلا پر کرنے میں مصروف ہیں۔  ایک جرمن خفیہ ادارے کی جانب سے منگل کے روز بتایا گیا ہے کہ مغربی جرمن صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں چالیس شدت پسند خواتین کے ایک نیٹ ورک کی شناخت کی گئی ہے۔

جرمنی میں مفت قرآن بانٹنے والی مسلم تنظیم پر پابندی رہے گی

قرآن بانٹنے والے سلفی گروپ پر پابندی، معاملہ جرمن عدالت میں

جرمنی میں داعش کے مبینہ ’بے چہرہ‘ سربراہ پر مقدمے کا آغاز

جرمنی کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا ميں تحفظِ دستور (BfV) کے صوبائی دفتر کے سربراہ بُرکہارڈ فرائیر نے روزنامہ فرانکفرٹر الگمائنے سے بات چیت میں کہا، ’’سلفی نظریات کے حامل اس نیٹ ورک کا پتا چلایا گیا ہے، جس کے ارکان بچوں میں اپنی مرضی کی سخت ترین اسلامی تشریحات اور غیرمسلموں کے خلاف نفرت کے جذبات منتقل کر رہے ہیں۔‘‘

انہوں نے کہا کہ اس کے نتائج ’’بے انتہا پیچیدہ ہو سکتے ہیں اور جرمن معاشرے کے متوازی ایک سلفی معاشرہ‘ قائم ہو سکتا ہے۔

بتایا گیا ہے کہ یہ شدت پسندانہ نیٹ ورک ملک میں سلفی نظریات کو فروغ دے رہا ہے۔ یہ نیٹ ورک انٹرنیٹ کے ذریعے لوگوں کو اسلام اور قرآن کی انتہائی قدامت پسندانہ تشریحات کی ترویج کر رہا ہے۔ فرائیر کا کہنا ہے کہ گو کہ سلفی نظریات کو شدت پسندی سے جوڑنا نادرست سمجھا جاتا رہا ہے، تاہم یورپ میں حالیہ کچھ برسوں میں شناخت کیا جانے والا تقریباﹰ ہر جہادی انہیں نظریات کا حامل ملا ہے۔

فرائیر نے بتایا کہ خواتین کا یہ نیٹ ورک بچوں کو انتہائی کم عمری میں ان شدت پسندانہ نظریات کی جانب راغب کرنے میں مصروف ہے، ’’سلفی ازم ایک طرح سے فیملی افیئر بن چکا ہے۔‘‘

فرائیر کے مطابق ان چالیس خواتین، جو خود کو بہنیں قرار دیتی ہیں، کی شناخت کر لی گئی ہے اور انہیں ان کی سرگرمیوں میں ان کے شوہروں کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے۔ ’’مردوں نے ان عورتوں سے کہہ رکھا ہے کہ وہ رابطے بڑھائیں اور اس طرح ان نظریات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچائیں۔‘‘

بی ایف وی کے سربراہ کا یہ بیان ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے، جب کچھ روز قبل جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے اپنی ایک رپورٹ کہا تھا کہ کئی درجن ایسی مسلم خواتین اور نوجوانوں کو شناخت کیا گیا ہے، جو داخلی سلامتی کے لیے ممکنہ طور پر خطرہ ہو سکتے ہیں۔