1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مساجد و مدارس کے حوالے سے بل: مذہبی تنظیموں کی تنقید

عبدالستار، اسلام آباد
25 اگست 2020

پاکستان کی مذہبی جماعتوں نے قومی اسمبلی سے منظور شدہ ’اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری پراپرٹیز بل‘ دو ہزار بیس کی شدید مخالفت کی ہے اور کہا ہے کہ حکومت مساجد کا کنڑول حاصل کرنا چاہتی ہے اور مساجد کو تحریری خطبے دینا چاہتی ہے۔

https://p.dw.com/p/3hTrs
Pakistan Islamabad - Islamisten Protestieren gegen Minister
تصویر: picture-alliance/AP Photo/B. K. Bangash

قومی اسمبلی نے یہ بل کل بروز پیر کو منظور کیا تھا، جو اب ایوان بالا سینیٹ میں زیر بحث آئے گا اور وہاں سے منظور ہونے کے بعد صدر کی منظوری کے لیے بھیجا جائے گا۔ اس بل کی شدید مخالفت جے یوآئی ایف اور جماعت اسلامی کی طرف سے کی گئی۔ پاکستان میں اس سے بھی پہلے کئی بار یہ کوششیں کی گئی ہیں کہ مساجد حکومت کے کنڑول میں آجائیں اور مدارس کو ملنے والے پیسے کی سخت نگرانی کی جائے۔ کچھ مساجد کی میں ریاست مخالف تقاریر کی وجہ سے یا مساجد کے سیاسی استعمال کی وجہ سے بھی کئی حلقوں نے بارہا یہ بھی مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان میں بھی دنیا کے کئی دوسرے اسلامی ممالک کی طرح  جمعے کے تحریری خطبے ہونے چاہییں لیکن مذہبی حلقوں نے ان تمام کوششوں کی ہمیشہ سے بھر پور مخالفت کی ہے۔ اب بھی اس بل کی مخالفت میں مذہبی تنظیمیں پیش پیش ہیں۔ جماعت اسلامی کے رکن قومی اسمبلی مولانا عبدل اکبر چترالی نے اس بل کی مخالفت کی وجوہات بتاتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، " بل میں یہ صاف صاف نہیں کہا گیا ہے کہ تحریری خطبہ ہوگا لیکن ہمارے خیال میں اس بل کا مقصد مساجد کو کنڑول کرنا ہے اور مدارس کے لیے مشکلات پیدا کرنا ہے۔ بل کہتا ہے کہ کسی تنازعہ کی صورت میں مسجد پر منتظم مقرر کیا جائے گا، جو حکومت کی طرف سے ہوگا۔ اس کا مطلب ہے کہ مسجد حکومت کے کنٹرول میں چلی جائے گی اور اس میں خطبہ سرکار کی مرضی سے پڑھایا جائے۔ پہلے یہ مساجد پر کنڑول حاصل کریں گے اور پھر تحریری خطبے دیں گے۔ اگر کسی کو دیکھنا ہے کہ حکومت کی لائن کس طرح ٹو کی جاتی ہے تو وہ اوقاف کی مساجد کو دیکھ لیں، جو آنکھ بند کر کے حکومت وقت کی ہمنوا بن جاتی ہیں۔"

ان کا مزید کہنا تھا کہ بل مدارس کے لیے بھی مشکلات پیدا کرے گا۔ " اس بل کے بعد اگر کوئی مدارس کو چندہ دے گا تو اس کو اپنی آن لائن تفصیلات جمع کرانی ہوگی۔ مساجد اور مدرسے حکومت سے پیسہ نہیں لیتے تو حکومت ایسی کوئی پابندی کیوں لگا سکتی ہے۔"

Pakistan Islamabad - Islamisten Protestieren gegen Minister
اسلام آباد میں 2017 ء میں تحریک لبیک یا رسول اللہ کے حامیوں کی ایک دھرنے کے دوران باجماعت نماز۔تصویر: picture-alliance/AP Photo/B. K. Bangash

عمران خان کی بھر پور مخالف جماعت جمعیت علماء اسلام فضل الرحمن بھی بل کی منظوری پر چراغ پا ہے۔ پارٹی کے سابق نائب امیر اور موجودہ ترجمان حافظ حسین احمد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس بل کی بھر پور مخالفت کی جائے گی۔ "اس بل کی آڑ میں جمعے کے خطبے تحریری طور پر دیے جائیں گے اور مساجد کا کنڑول حکومت کے پاس چلا جائے گا تاکہ منبر سے حکمرانوں کی تعریف و توصیف ہو اور ان کے غیر شرعی کاموں پر نکتہ چینی نہ ہو۔"

ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ کوئی سعودی عرب نہیں جہاں حکومت مساجد کو اس طرح کنڑول کرے۔ "پاکستان ایک جمہوری ملک ہے۔ یہاں اس طرح کی پابندی کوقبول نہیں کیا جائے گا۔ سعودی عرب میں تو پھر بھی حکومت مساجد کے سارے اخراجات برداشت کرتی ہے، یہاں یہ اخراجات کوئی برداشت نہیں کرنا چاہتا لیکن صرف کنڑول کرنا چاہتے ہیں، جس کی بھرپور مزاحمت کی جائے گی اور علما اس بل کو نہیں مانیں گے۔"

حکومت کا کہنا ہے کہ اس نے بل میں تحریری خطبے کا نہیں کہا لیکن ایسا خطبہ ہونے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی محمد اقبال خان کا کہنا ہے ماضی میں منبر کا غلط استعمال کیا گیا۔ "کالعدم فاٹا میں جو مذہبی شدت پسندی بڑھی اس میں اس جمعے کے خطبات کا بہت کردار تھا، جہاں سے ریاست مخالف باتیں کی جاتی تھیں۔ آج بھی مساجد میں خطبات کو مذہبی اور فرقہ وارانہ نفرت پھیلانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ تو میرے خیال میں تحریری خطبوں میں کوئی حرج نہیں اور یہ کام بہت پہلے ہوجانا چاہیے تھا۔"

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس طرح کے تحریری خطبوں سے مذہبی منافرت کو روکا جا سکتا ہے اور ایسے عناصر کا قلع قمع بھی کیا جا سکتا ہے، جو مسجد اور مدارس کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔"

عبدالستار/ اسلام آباد

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں