1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مسائل کے حل کی کنجی پاکستان کے پاس ہے، صلاح الدین ربانی

28 جون 2012

افغان امن کونسل کے سربراہ نے پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ طالبان قیدیوں کو رہا کرتے ہوئے جنگجو رہنماؤں سے امن مذاکرات کے لیے کوشش کرے۔ انہوں نے کہا ہے کہ دس سالہ افغان جنگ کے خاتمے کے لیے پاکستان کا کردار انتہائی اہم ہے۔

https://p.dw.com/p/15N00
صلاح الدین ربانیتصویر: Reuters

اپنے والد برہان الدین ربانی کی ہلاکت کے بعد اپریل میں افغان امن کونسل کے سربراہ کا منصب سنبھالنے والے صلاح الدین ربانی نے مغربی میڈیا کو دیے گئے اپنے پہلے انٹرویو میں کہا ہے کہ وہ امید رکھتے ہیں کہ 2014ء میں افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلاء کے بعد ملک میں امن قائم ہو جائے گا۔

صلاح الدین ربانی نے کہا ہے کہ وہ سعودی عرب اور پاکستان کے دورےکے دوران افغان طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کی پیچیدگیوں پر سیر حاصل مذاکرات کریں گے۔ ان اہم دوروں سے قبل انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’ طالبان قیادت کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے پاکستان بہت کچھ کر سکتا ہے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ اس تمام عمل کی پیچیدہ گتھیاں سلجھانے کے لیے پاکستان ایک کنجی کا کردار ادا کر سکتا ہے۔

Burhanuddin Rabbani SW
برہان الدین ربانیتصویر: picture alliance/dpa

خبر رساں ادارے روئٹرز نے اپنے ایک جائزے میں لکھا ہے کہ واشنگٹن حکومت بھی افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کو کامیاب بنانے کے حوالے سے پر امید ہے۔ صدر حامد کرزئی کی انتظامیہ، امریکی سفارتکاروں اور افغان طالبان کے درمیان یہ مذاکراتی عمل اس وقت تعطل کا شکار ہو گیا تھا جب مبینہ طور پر پاکستان میں موجود افغان طالبان کی قیادت نےکوئی مثبت جواب نہیں دیا تھا۔

صلاح الدین ربانی کے بقول پاکستانی حکومت کو ایسے مقامات پر موجود طالبان قیادت کے ساتھ مذاکراتی عمل شروع کرنا چاہیے جہاں اس کا اپنا اثر ورسوخ قائم ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسلام آباد حکومت کو ملا عبدالغنی برادر جیسے ان طالبان کو رہا کر دینا چاہیے، جو امن مذاکرات کے حامی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ اپنی بھرپور کوشش کریں گے کہ پاکستان ایسے طالبان کو کابل حکومت کے حوالے کر دے۔

افغان حکومت کا خیال ہے کہ پشتون قبیلے کی باعزت شخصیت ملا عبدالغنی برادر طالبان باغیوں کو مذاکرات پر راضی کر سکتے ہیں۔ ربانی کے بقول، ’’ان جیسے طالبان کو آزاد کرنے یا کابل حکومت کے حوالے کرنے سے اس عمل میں تیزی پیدا ہو سکتی ہے‘‘۔

روئٹرز نے اپنے جائزے میں لکھا ہے کہ 2009ء میں ملا برادر نے اسلام آباد حکومت کی اجازت کے بغیر ہی اپنے طور پر طالبان باغیوں سے مذاکرات کا سلسلہ شروع کر دیا تھا، جس کے بعد 2010ء میں انہیں کراچی سے گرفتار کر لیا گیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلاء کے بعد حکومت پاکستان افغانستان میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانا چاہتی ہے، اس لیے وہ اس مذاکراتی عمل کی مخالف ہے۔ تاہم حکومت پاکستان ایسے الزامات کو مسترد کرتے ہوئےکہتی ہے کہ وہ افغانستان میں قیام امن اور مذاکراتی عمل میں اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔

ab/ia(Reuters)