1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مختاراں مائی پر نیویارک میں اوپیرا

امجد علی15 جنوری 2014

پاکستان میں مئی 2002ء میں گاؤں کی پنچایت کے ایک فیصلے کے بعد گینگ ریپ کا نشانہ بننے والی مختاراں مائی کی داستان پر مبنی ایک اوپیرا آج کل امریکی شہر نیویارک میں ’تھمب پرنٹ‘ کے نام سے پیش کیا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/1AqqC
بیالیس سالہ مختاراں مائی آج کل لڑکیوں کا ایک اسکول چلا رہی ہیں
بیالیس سالہ مختاراں مائی آج کل لڑکیوں کا ایک اسکول چلا رہی ہیںتصویر: Fabrice Coffrini/AFP/Getty Images

اس اوپیرا کی پروڈکشن پر ایک لاکھ پچاس ہزار ڈالر لاگت آئی ہے اور یہ نیویارک کے علاقے مَین ہیٹن کے ایک تہ خانے میں قائم ایک چھوٹے سے تھیٹر میں اسٹیج کیا جا رہا ہے۔

جنوبی ایشیا میں خواتین کو تواتر کے ساتھ گھناؤنے مظالم کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ایسا ہی ظلم اس پاکستانی خاتون کے ساتھ بھی ہوا، جس نے دیگر بہت سی خواتین کی طرح اس ظلم پر خاموش ہو جانے کی بجائے اس کے خلاف آواز بلند کی اور حقوقِ نسواں کی علمبردار کے طور پر بین الاقوامی سطح پر عزت اور شہرت حاصل کی۔

عام طور پر کسی اوپیرا کے لیے اس طرح کا موضوع نہیں لیا جاتا لیکن اس اوپیرا کے پروڈیوسرز کا مقصد بھی ناظرین کو چونکانا ہے اور یوں اُن میں اس موضوع کے لیے آگاہی پیدا کرنا ہے۔

یہ اوپیرا نیویارک کے علاقے مین ہیٹن کے ایک تہ خانے میں ایک چھوٹے سے تھیٹر میں اسٹیج کیا جا رہا ہے
یہ اوپیرا نیویارک کے علاقے مین ہیٹن کے ایک تہ خانے میں ایک چھوٹے سے تھیٹر میں اسٹیج کیا جا رہا ہےتصویر: picture-alliance/AP

اگرچہ جریدے نیویارک ٹائمز نے اس اوپیرا پر اپنے تبصرے میں اسے زیادہ نہیں سراہا اور اسے کئی لحاظ سے ’ناکافی‘ قرار دیا ہے تاہم جنوبی ایشیائی اور مغربی موسیقی کو اس اوپیرا میں بڑے مؤثر طریقے سے استعمال کیا گیا ہے اور اسے بہرحال ایک اختراعی پیشکش قرار دیا جا رہا ہے۔

اسٹیج کے پس منظر میں کپڑے کی ایک بڑی سی چادر لٹکی نظر آتی ہے، جسے فلمی مواد دکھانے کے لیے اسکرین کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ سامنے چند ایک کرسیاں اور چارپائیاں پڑی ہیں۔ سادہ سے اسٹیج ڈیزائن کی مدد سے ایک پاکستانی گاؤں میں گرد، گرمی اور وہاں کی روایات انتہائی بھرپور طریقے سے دکھائی گئی ہیں۔

مختاراں مائی کی عمر آج کل تقریباً بیالیس برس ہے اور وہ لڑکیوں کا ایک اسکول چلا رہی ہے۔ کوئی بارہ برس پہلے اُس کے بارہ سالہ بھائی پر طاقتور مستوئی قبیلے کی ایک خاتون کے ساتھ نامناسب تعلقات کا الزام لگایا گیا تھا۔ گاؤں کی پنچایت کے ایک فیصلے کے نتیجے میں مختاراں مائی کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس جرم کے لیے چھ افراد کو سزائے موت سنائی گئی تھی، جن میں سے پانچ کو بعد ازاں بری کر دیا گیا جبکہ بڑے مجرم کی سزائے موت عمر قید میں بدل دی گئی تھی البتہ اوپیرا میں ان حقائق کو شامل نہیں کیا گیا۔

مختاراں مائی کی داستان کی باز گشت بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں اجتماعی زیادتی کے ایک سال پہلے کے اُس واقعے کے بعد سے ایک بار پھر سنائی دی ہے، جس میں کچھ مردوں نے میڈیکل کی ایک طالبہ کو ایک چلتی بس میں تشدد اور زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد بس سے نیچے پھینک دیا تھا۔ یہ زخمی طالبہ بعد ازاں اپنے ساتھ ہونے والے تشدد کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسی تھی۔ بین الاقوامی سطح پر اس واقعے سے یہ بات اور بھی زیادہ واضح ہوکر سامنے آئی تھی کہ بھارت میں خواتین کے خلاف تشدد اب ایک نئے نقطہء عروج پر پہنچ گیا ہے۔

مختاراں مائی نے دیگر بہت سی خواتین کی طرح اس ظلم پر خاموش ہو جانے کی بجائے اس کے خلاف آواز بلند کی اور حقوقِ نسواں کی علمبردار کے طور پر بین الاقوامی سطح پر عزت اور شہرت حاصل کی
مختاراں مائی نے دیگر بہت سی خواتین کی طرح اس ظلم پر خاموش ہو جانے کی بجائے اس کے خلاف آواز بلند کی اور حقوقِ نسواں کی علمبردار کے طور پر بین الاقوامی سطح پر عزت اور شہرت حاصل کیتصویر: AP

اس اوپیرا کی موسیقی بھارتی نژاد امریکی کمپوزر کملا سنکرم نے ترتیب دی ہے اور اُنہوں نے ہی اس کا ٹائیٹل گیت بھی گایا ہے۔ اے ایف پی سے باتیں کرتے ہوئے کملا سنکرم نے، جو ایک ستار نواز ہونے کے ساتھ ساتھ مغربی موسیقی بھی جانتی ہیں، مختاراں مائی کے حوالے سے کہا کہ ’وہ مکمل طور پر اَن پڑھ اور اپنے حقوق اور ملکی قوانین سے بالکل ہی نابلد تھی لیکن اُس نے پھر بھی آگے آنے کی ہمت کی‘۔

اس اوپیرا میں اجتماعی زیادتی کے واقعے کو محض پس منظر میں سنائی دینے والی چیخوں کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی دکھایا جاتا ہے کہ کیسے ایک چاقو ریت سے بھرے ہوئے تھیلوں کو کاٹتا چلا جا رہا ہے۔

اوپیرا کا اسکرپٹ سُوزن یانکووِٹس نے لکھا ہے، جن کا کہنا ہے کہ اس اوپیرا میں ہمت اور حوصلے کی داستان دکھائی گئی ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ پوری دنیا میں خواتین کی صورتِ حال کتنی نازُک اور پُر خطر ہے۔

یہ چھوٹے پیمانے کی پروڈکشن ہے، جس کا آرکسٹرا بھی چھ افراد پر مشتمل ہے اور گلوکار بھی چھ ہی ہیں، جن میں سے کئی ایک سے زیادہ کرداروں میں جلوہ گر ہوتے ہیں۔ نوّے منٹ دورانیے کا یہ اوپیرا ایک چھوٹے میوزک اوپیرا فیسٹیول کے ایک حصے کے طور پر ایک ایسے تھیٹر میں اسٹیج کیا جا رہا ہے، جہاں صرف 170 افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہے۔ ایک ٹکٹ کی قیمت پچیس ڈالر رکھی گئی ہے۔