1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مالاکنڈ میں نظام عدل اور پاکستان میں عمومی رائے

فرید اللہ خان، پشاور14 اپریل 2009

مالاکنڈ ڈویژن میں شرعی نظام عدل ریگولیشن کی منظوری کے بعد قاضی عدالتوں نے باقاعدہ کام شروع کردیا ہے۔

https://p.dw.com/p/HWqp
نظام عدل کے حوالے سے سب سے زایادہ خدشات خواتین کے حقوق کے حوالے سے کام کرنے والی تنظیموں کو ہیںتصویر: AP

ایک طرف سوات اورمالاکنڈ ڈویژن کے عوام حکومت کے اس فیصلے سے خوش ہیں وہیں دوسری جانب سیاسی جماعتیں بھی مالاکنڈ میں نظام عدل کے نفاذ کے ذریعے امن کے قیام سے پرامید ہیں۔ سیاسی قائدین کا کہنا ہے کہ جو مسئلہ ڈیڑھ سال سے طاقت کے ذریعے حل نہ ہوسکا بات چیت اورمذاکرات سے اس کا حل نکالنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔

پیپلزپارٹی کے صوبائی صدرسید ظاہر علی شاہ کہتے ہیں : ’’ جس مرحلے پرآج ہم پہنچے ہیں اس کے لیے ایک عرصہ سے مذاکرات اوربات چیت کی گئی اور اس بات چیت میں تمام فریقین سے مذاکرات کیے ہماری مشترکہ سوچ ہے اوراس کی بناء پر ایک نتیجے پر پہنچے ہیں ہمیں مکمل یقین ہے کہ ہم اس میں کامیاب ہوں گے گورنراگلے دو دن میں آرڈنینس جاری کریں گے ہمارابنیادی مقصد یہ تھاکہ پارلیمنٹ سے پاس کرواکے تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لیاجائے۔ صدرنے اپنا اختیار پارلیمنٹ کو دیا تاخیر بھی ایک مقصد کےلئے تھی۔‘‘

سیاستدانوں سمیت وکلاء نے بھی نظام عدل ریگولیشن کے نفاذ کاخیر مقدم کیا ہے۔ سوات بارکونسل کے صدر آفتاب عالم کاکہنا ہے: ’’وکلاء بھی چاہتے ہیں کہ عوام کو جلداور فوری انصاف ملے اب ضرورت اس با ت کی ہے کہ ریگولیشن پر فورا ً عمل درآمد شروع کیاجائے تمام فریقین سے درخواست ہے کہ ابھی امن کی بحالی کے لئے کام کریں۔‘‘

لیکن بعض حلقے ایسے ہیں کہ ان کے نظام عدل ریگولیشن پرخدشات ہیں ان کا کہنا ہے کہ یہ سب کچھ بندوق کے زور پر ہواہے جس کے دیرپا ہونے کے امکانات کم نظر آتے ہیں مالاکنڈ ڈویژن میں ابھی تک طالبان کا اثر ہے اوراسے ختم کرنے اور اداروں کی بحالی میں وقت لگے گا۔ خواتین کے حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیم عورت فاؤنڈیشن کی ریذیڈنٹ ڈائریکٹر شبینہ ایاز اسی طرح کے خدشات کااظہارکرتی ہیں ان کا کہنا ہے : ’’ جو باتیں سامنے آئی ہیں اس میں یہی کہاگیا ہے کہ خواتین کام نہیں کریں گی غیرسرکاری تنظیموں پر پابندی لگائی جائےگئی یا پھر عورتوں کے حوالے سے کام کرنے والی تنظیموں پر پابندی ہوگی۔

اسی طرح خواتین کے تعلیمی اداروں پر بھی ان کاسخت موقف رہا ہے جو ابھی تک واضح نہیں ہے انسانی حقوق کے حوالے سے کئی دیگر باتیں ایسی ہیں جس پرہمارے خدشات ہیں تعلیم صحت اور بنیادی سہولیات کے حقوق دنیا میں کوئی نہیں روک سکتا۔‘‘

ان کا کہنا ہے : ’’سب کچھ جبر کے ذریعے کیاگیا ہے کوئی رضا مند ی سے توان کی بات نہیں مانتا اس لیے تھوڑا سا وقت لگے گا ہم بھی انتظار کررہے ہیں کہ حالات میں کس طرح بہتری آسکتی ہے۔‘‘

طالبان اورتحریک نفاذ شریعت محمدی کے رہنماء اسے کامیابی قرا ردیتے ہیں مولاناصوفی محمد کا کہنا ہے : ’’ نفاذ شریعت کاوعدہ پورا ہونے کے بعد مسلح گشت کرنے کاجواز نہیں بنتا اب اس نظام کو کامیاب بنانے کے لئے اقدامات اٹھانے ہوں گے۔‘‘

لیکن تجزیہ نگار اور قبائلی امور کے ماہر بریگیڈئیر ریٹائرڈ محمود شاہ کا کہنا ہے: ’’اب ان لوگوں کو بھی عدالت میں لانا چاہیے جنہوں نے ظلم کیے اور سرکاری املاک کو تباہ کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ طالبان کا مطالبہ تھا جو مان لیاگیا ہے اب طالبان بھی حکومت کے ساتھ کیے گئے وعدے پورے کریں حکومت کوچاہیے کہ طالبان سے کہے کہ وہ اپنا اسلحہ حکومت کے پاس جمع کرائیں اورحکومت ان کی تنظیم تحلیل کرے حکومت ان پر دباؤ ڈالے تاکہ یہ مزید مطالبات نہ کریں اوراگرایسا نہیں ہے تو یہ حکومت کے لئے باعث تشویش بات ہوگی۔ محمود شاہ کا کہنا ہے: ’’جن لوگوں نے ظلم کیا ہے ان کو اسی نظام عدل کے تحت شرعی عدالتوں میں لاناچاہیے اوران سے بات کرنا چاہیے کہ انہیں اپنی بے گناہی ثابت کرنی ہوگی انصاف تب ہوگا جب سکول اور سرکاری اداروں کو تباہ کرنے والوں کو بھی کٹہرے میں کھڑا کیاجائے‘‘۔

نظام عدل ریگولیشن 1994ء میں سوات میں نافذ کیاگیا 1999ء میں اس میں ترامیم کی گئیں لیکن یہ ترامیم بھی مالاکنڈ ڈویژن کے عوام کوانصاف کی فراہمی میں کارگر ثابت نہ ہوسکی حال ہی میں پارلیمنٹ سے ہوکر صدر مملکت کی جانب سے دستخط ہونے والے ریگولیشن کو نظام عدل ریگولیشن 2009ء کانام دیاگیا ہے اس نئے مسودے میں اتنا فرق ضرور ہے کہ مالاکنڈ ڈویژن میں دارالقضاء (ہائیکورٹ ) اورداردارالقضاء( سپریم کورٹ )کے بینج قائم کیے جائیں گے جو سول مقدمے کافیصلہ 6ماہ اور فوجداری کافیصلہ 4ماہ میں کرنے کاپابندہوگا تاہم سوات کے عوام بھی طالبان کے غیرمسلح ہونے پر بے یقینی کی صورتحال سے دوچار ہیں۔