1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مارشل ٹیٹو کی 30 ویں برسی

4 مئی 2010

سابق سوشلسٹ ریاست یوگوسلاویہ کے حکمران رہنے والے جوزپ بروز ٹیٹو کی 30 ویں برسی چار مئی کو منائی جا رہی ہے۔ تمام سابق یوگوسلاوی علاقوں میں ٹیٹو کے حامیوں اور پرستاروں نے اِس دن کے موقع پر اُن کی یاد تازہ کی ہے۔

https://p.dw.com/p/NEAi
تصویر: AP

کرشماتی شخصیت کے حامل ٹیٹو نےدوسری عالمی جنگ کے بعد اِس ملک میں اقتدار سنبھالا تھا اور وہ 35 برسوں تک اِس ملک کے سیاہ و سفید کے مالک رہے لیکن ٹیٹو سے ایک ہی غلطی ہوئی کہ اُنہوں نے 1945ء کے بعد اپنی صفوں میں فاشسٹ اور نیشنل سوشلسٹ رجحانات پر بات کرنے کی ممانعت کر دی تھی۔ جواز یہ بتایا گیا کہ یہ رجحانات محض اٹلی کے فاشسٹوں اور جرمنی کے نازیوں کی وجہ سے نظر آ رہے ہیں۔ چنانچہ ٹیٹو کی موت کے بعد پرانے تنازعات پھر سے ابھر کر سامنے آ گئے۔ وفاقی جرمن پارلیمان کے سابق رکن اور موستار شہر کے پہلے بین الاقوامی منتظم ہنس کوشنک کے خیال میں اگر اُس زمانے میں تاریخ کا بہتر انداز میں تجزیہ کر لیا جاتا تو خانہ جنگی کی نوعیت اُس سے جزوی طور پر مختلف ہوتی، جیسی کہ بعد میں ہمارے زمانے میں دیکھنے میں آئی ہے۔ کوشنک بتاتے ہیں کہ ٹیٹو نے یورپی اور عالمی سیاسی منظر نامے میں ایک اہم کردار ادا کیا:’’ سیدھے سیدھے انداز میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ٹیٹو کو پسند کیا جاتا تھا کیونکہ اُس نے خود کو ماسکو کے شکنجے سے آزاد کر لیا تھا۔ درحقیقت وہ اُن چند شخصیات میں سے ایک تھے، جو مختلف بلاکوں کے درمیان پُل تعمیر کرنے کے قابل تھیں اور جن کے ساتھ بات کی جا سکتی تھی۔ یورپ میں ان شخصیات کا تعلق فن لینڈ، یوگوسلاویہ اور آسٹریا سے تھا۔‘‘

NO FLASH AVNOJ
ٹیٹو سن 1943ء میںتصویر: Museum AVNOJ Jajce

برلن میں جنوب مشرقی یورپی تاریخ کے پروفیسر ہولم زُنڈہاؤسن کے مطابق سابق یوگوسلاویہ اور بیرونی دُنیا کے بہت سے لوگوں کا یہ دعویٰ غلط ہے کہ یوگوسلاوی ریاست وہاں بسنے والے قومی گروپوں کے درمیان پائی جانے والی اُس ازلی و ابدی نفرت کی وجہ سے ٹوٹی، جسے ٹیٹو کے دَور میں طاقت کے زور پر دبایا جاتا رہا تھا۔ اُن کے مطابق گورباچوف کے دور میں مشرق و مغرب کے درمیان تنازعہ ختم ہو جانے سے ناوابستہ ممالک کی اُس تحریک کا بھی مزید کوئی جواز باقی نہ ر ہا، جس کی بنیاد رکھنے والوں میں ٹیٹو بھی شامل تھے۔ ٹیٹو نے مزدوروں کو انتظامیہ کا حصہ بنانے کا جو طریقہء کار متعارف کروایا، وہ معاشی اعتبار سے غیر سُودمند ثابت ہوا اور ’ٹیٹو سسٹم‘ کہلانے والا نظام بتدریج اپنی افادیت کھو بیٹھا۔ زُنڈہاؤسن کہتے ہیں کہ ٹیٹو ہی کے ساتھی سیاستدان اور دانشور جنگ میں بھی ملوث تھے:’’ٹیٹو کا نام ایک ایسے رہنما کے طور پر آتا ہے، جس نے اپنے ملک کو نیشنل سوشلسٹوں اور اُن کے حلیفوں سے آزاد کروایا۔ ٹیٹو نے سٹالن کے خلاف کامیاب مزاحمت کی، پچاس کے عشرے کے اوائل سے یوگوسلاویہ میں حالات کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں لی، مغربی دُنیا کی جانب مفاہمت کا ہاتھ بڑھایا، غیر جانبدار ملکوں کی تحریک میں اپنے ملک کو ایک خصوصی مقام دلوایا اور اپنے عوام کو ایک ایسی قدرے خوشحال زندگی دی، جس کا دیگر سوشلسٹ ممالک کے شہری اُس زمانے میں محض خواب ہی دیکھ سکتے تھے۔‘‘

Staatsbesuch von Tito in Belgien
اکتوبر 1970ء: ٹیٹو (درمیان میں) اپنی اہلیہ اور بیلجیئم کے شاہ بودوآں کے ہمراہ بیلجیئم کے ایک دورے کے موقع پرتصویر: picture-alliance/ dpa

تاہم زُنڈہاؤسن کے مطابق اپنی اِن پالیسیوں پر عملدرآمد کے لئے ٹیٹو نے جو طریقہ اپنایا، وہ درست نہیں تھا۔ جنگ کے اختتام پر قابض دَستوں، اُن کے لواحقین اور اُن کا ساتھ دینے والے مقامی لوگوں کو انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنا کر ہلاک کیا گیا۔ زُنڈ ہاؤسن کے خیال میں ’اگر تب یوگوسلاویہ کے لئے جنگی جرائم کا کوئی ٹرائی بیونل مقرر کیا جاتا تو ممکن ہے کہ ٹیٹو کو بھی وہاں جوابدہ ہونا پڑتا۔‘

جرمن شہر پوٹسڈام میں فوجی تاریخ پر تحقیق کے محکمے کے ہارالڈ پوٹیمپا کے خیال میں دوسری عالمی جنگ کے دوران یوگوسلاویہ پر قابض جرمن دَستوں کے خلاف گوریلا جنگ اور اس ملک کو آزاد کروانے کا سہرا ٹیٹو کے سر بھی جاتا ہے۔ تاہم وہ کہتے ہیں کہ اُس زمانے میں لڑی گئی گوریلا جنگ کو آج کل کی نئی تحقیق ایک نئے انداز میں بھی دیکھتی ہے۔ درحقیقت ایک طرف چھاپہ ماروں کی سرگرمیاں تھیں تو دوسری جانب خود جرمن دَستے بھی وہاں سے واپس ہٹنا شروع ہو گئے تھے کیونکہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ جنوب مشرقی یورپ میں موجود سوویت سرخ فوج خطہء بلقان میں جرمن دَستوں کا راستہ کاٹ دے۔ پوٹیمپا کے مطابق ’غیر جانبدار ممالک کی تحریک بہرحال ٹیٹو کا کارنامہ ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ٹیٹو کا یوگوسلاویہ مغربی ممالک کی طرز پر کوئی جمہوری ملک بھی نہیں تھا۔‘

رپورٹ: زیلما فلیپووِچ / امجد علی

ادارت: کشور مصطفےٰ